علم کے وہ چراغ جو جہالت کے اندھیروں کو مات دے کر روشنی پھیلاتے ہیں، وقت کی گرد میں کبھی مدھم نہیں ہوتے، بل کہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ درخشاں رہتے ہیں۔
انھی چراغوں میں ایک روشن نام مولانا انظر گل رحمہ اللہ المعروف شنگریٔ مولوی صاحب کا ہے، جن کی زندگی دینی علوم، روحانی تربیت، تدریسی خدمات اور قربانیوں کا ایک بے مثل باب ہے۔
٭ ابتدائی زندگی، ایک چراغ جلا:۔
سوات کی سرسبز وادی میں، جہاں پہاڑوں کی بلندیاں آسمان سے ہم کلام ہوتی ہیں، 1893ء میں زندوالہ، تحصیلِ چارباغ کے ایک علمی گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا، جس کی پیشانی پر تقدیر نے علم و ہدایت کی روشنی رقم کر دی تھی۔ وہ بچہ مولانا انظر گل تھا، جو آگے چل کر دین و دانش کی ایسی شمع بنا، جس کی روشنی ہزاروں دلوں کو منور کرگئی۔
مولانا انظر گل کے والد مولانا عبد الحنان رحمہ اللہ خود ایک جید عالم تھے، اور مولانا انظر گل کو یہ علمی ورثہ اُن کے ساتھ ساتھ اپنے بڑے بھائی مولانا خونہ گل رحمہ اللہ (المعروف کیملپور مولوی صاحب) سے بھی ملا، جو دارالعلوم چارباغ کے صدر مدرس تھے۔
٭ تحصیلِ علم ایک نہ بجھنے والی پیاس:۔
علمی جستجو نے مولانا انظر گل کو چارباغ سے لیلونئی، کانا، کروڑہ اور پھر لاہور اور دہلی جیسے بڑے علمی مراکز تک پہنچایا۔ دہلی میں قیام کے دوران میں مولانا انظر گل، مولانا سیف الملوک اور مولانا عبد الغفور رحمہ اللہ (المعروف شینڈ مولوی صاحب) کے ساتھ بٹاوری ہاؤس مسجد، دریا گنج میں مقیم رہے۔ یہ وہی دور تھا جب برِ صغیر آزادی کی تحریکوں کی آماج گاہ بن چکا تھا اور دنیا دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں میں گھری ہوئی تھی…… لیکن مولانا انظر گل رحمہ اللہ کے سامنے ایک ہی مقصد تھا: علم کی روشنی کو اپنی ذات میں جذب کرنا اور پھر دوسروں تک پہنچانا۔
مولانا انظر گل نے مدرسہ امینیہ، کشمیری گیٹ دہلی میں داخلہ لیا اور وہاں دورۂ حدیث تک تعلیم مکمل کی۔ اُن کی محنت، لگن اور علمی بصیرت کی بہ دولت اساتذہ بھی اُن کی ذہانت کے معترف تھے۔
٭ قیامِ پاکستان ایک آزمایش بھرا سفر:۔
1947ء میں جب برِصغیر کی تقسیم ہوئی، تو دہلی فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ ہزاروں مسلمانوں کی طرح مولانا انظر گل رحمہ اللہ کو بھی ہمایوں کے مقبرے میں پناہ لینا پڑی…… لیکن سب سے بڑا صدمہ یہ تھا کہ مولانا کی علمی کتب دہلی کی مسجد میں رہ گئیں، جنھیں انتہا پسندوں نے نذرِ آتش کر دیا۔ یہ صرف کتابوں کا نقصان نہیں تھا، بل کہ ایک ایسا علمی خزانہ تھا، جسے اکٹھا کرنے میں عمریں بیت جاتی ہیں…… مگر آزمایشوں کے اس سمندر میں بھی اُن کا صبر پہاڑوں کی مانند اٹل رہا۔ پاکستان کی طرف ہجرت کا مرحلہ بھی کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ دہلی سے لاہور کا فاصلہ محض 13 گھنٹے کا تھا، لیکن خوف ناک حالات اور فسادات کے سبب یہ سفر سات دنوں میں طے ہوا۔ لاہور پہنچنے کے بعد مولانا نوشہرہ اور پھر اپنے آبائی علاقے سوات روانہ ہوئے۔
٭ علمی و تدریسی خدمات، چراغ سے چراغ جلا:۔
ریاستِ سوات میں مولانا انظر گل رحمہ اللہ کو سرکاری ملازمت حاصل ہوئی، لیکن اُن کی اصل پہچان درس و تدریس تھی۔ جب گورنمنٹ دارالعلوم اسلامیہ (چارباغ) قائم ہوا، تو اُنھوں نے وہاں بہ طورِ مدرس اپنی خدمات پیش کیں اور اپنی ریٹائرمنٹ تک اسی ادارے سے وابستہ رہے۔ اُنھوں نے زندگی بھر علم کے متلاشیوں کو وہ نور عطا کیا، جو کتابوں میں تو لکھا ہوتا ہے، لیکن اس کی حقیقی روشنی صرف اہلِ علم کے دلوں میں ہوتی ہے۔ اُن کے سیکڑوں شاگرد آج بھی دینی، تدریسی اور اصلاحی میدان میں اُن کے علمی چراغ کو تھامے ہوئے ہیں۔
٭ حج بیت اللہ سعادتِ ابدی:۔
ریٹائرمنٹ کے بعد مولانا انظر گل رحمہ اللہ نے بحری جہاز کے ذریعے حج کی سعادت حاصل کی۔ اس سفر میں بھی اُن کی روحانی کیفیت ایسی تھی کہ ہر لمحہ شکر اور محبتِ الٰہی میں گزرا۔ وصالِ چراغ بجھتا نہیں، روشنی میں بدلتا ہے۔ علم و عرفان کا یہ آفتاب اپریل 1987ء میں غروب ہوا۔ اُن کی کوئی اولاد نہ تھی، لیکن اُن کی تدریسی اور روحانی میراث نے اُن کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔
٭ آخری چراغ، ہمیشہ رہنے والی روشنی:۔
مولانا انظر گل رحمہ اللہ کی زندگی تقوا، علم، ہجرت، قربانی اور صبر کی ایک روشن تفسیر تھی۔ وہ ہمیں یہ سبق دے گئے کہ علم وہ روشنی ہے ، جو کتابوں سے نکل کر دلوں میں اُترتی ہے اور پھر نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔
آج بھی ان کے شاگرد اور ان کے تدریسی نقوش، اس چراغ کی روشنی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو جنت کے نور سے منور فرمائے اور ہمیں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، یا رب العالمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
