عدم تشدد: عقیدہ یا نظریہ؟

Blogger Hamza Nigar

عدم تشدد کی تاریخ ہندوستان میں آریائی تہذیب سے پہلے کی ہے، لیکن ہندوستانی، عدم تشدد کو آریائی تہذیب سے جوڑتے ہیں۔ چوں کہ دراوڑیوں کے ہاں عدم تشدد کو مذہبی مقام حاصل نہیں تھا، اس لیے یہ ایک آریائی نظریہ ٹھہرا۔ صدیوں تک آریا نسل مقامی دراوڑیوں کو مغلوب کرتی آئی۔ دراوڑیوں کو مغلوب کرنے سے لے کے ہندو شاہی کے دور میں ہزاروں بدھسٹ مذہبی منافرت کا شکار رہے۔ کنگ ’’پوشیا مترا‘‘ کا دور تو مشہور ہی ہے بدھسٹ پر مظالم کی وجہ سے۔ بدھ مت جو سناتن مذہب ہی کی ایک شاخ بن کر اُبھرا اور گوتم بدھ جس کو وشنو کی اوتار کہا گیا، اس کے باوجود کُشان دور کے خاتمے کے بعد بدھسٹ در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے بدھ مت کے پیروکاروں کو ساسانیوں کے زیرِ اثر ہندو شاہی سے زیادہ آزادی حاصل تھی۔ جین مت اس تشدد کا مقابلہ نہ کر پایا اور دیکھتے دیکھتے ایک "Brahminical Sect” بن گیا۔
ہندوستان کی تاریخ پڑھ کے لگتا ہے کہ اہمسا (اہنسا) صرف گائے اور جانوروں کا گوشت نہ کھانے تک محدود تھا، یا یہ صرف ایک "Theological Construct” تھا، جو بعد میں ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر اپنایا گیا۔ مہا بھارت میں کئی جگہ پر اس جملے کا ذکر آیا ’’اہمسا پرامو دھرما‘‘ جس کا مطلب ہے ’’عدم تشدد اعلا ترین اخلاقی خوبی ہے۔‘‘ لیکن اسی مہا بھارت میں جب کرشن اپنے بھگت ارجن کو کورو کو مارنے کی تلقین کرتا ہے، تو ارجن مارنے سے ہچکچاتا ہے۔ اور کرشن کہتا ہے نہ کوئی مارتا ہے نہ کوئی مارتا ہے ۔ رامائن میں بھی رام اور راون مدمقابل ہیں۔ ہزاروں برس کی یہ تاریخ باقی اقوام کی طرح تشدد سے بھرپور ہے۔
عدم تشدد کچھ سکالروں کے ہاں صرف سنیاسیوں کے لیے ہے۔ آج کے دور میں لگتا ہے جیسے ’’اہمسا‘‘ صرف "Digambara Jain” تک محدود ہے (یہ جین مت کا ایک فرقہ ہے جو برہنہ رہتا ہے اور سخت ترین روحانی مشق کرتا ہے۔)
اہمسا کا اثر ہندوستان پر مختلف شکلوں میں رہا۔ اسی کی وجہ سے "Vegetarianism” کو فروغ ملا۔ جانوروں کا شکار اور ان کو کھانے کا عمل مکروہ سمجھا گیا۔ اس کے علاوہ جب بیرونی حملہ آوروں ہندوستان پر چڑھائی کی، تو یہاں کے لوگ مزاحمت سے عاری پائے گئے، لیکن جب جب طاقت ملی، تب تب کم زوروں کو تشدد کے اصل روپ بھی دیکھنے پڑے۔
کولونیل دور میں جہاں کئی جگہ پہ تاریخ مسخ کی گئی، وہاں کئی موقعوں پر تاریخ کو بڑھا چڑھا کر بھی پیش کیا گیا۔ جیسا کہ آشوکا، جو بعد میں ’’آشوکا اعظم‘‘ بنا۔ آشوکا کی "Glorification” برٹش راج نے کی اور دیکھتے دیکھتے آشوکا کے "Edicts” کے جلوے ہندوستانی پرچم پر بھی دیکھے جانے لگے۔ آشوک نے کلنگہ کی لڑائی کے بعد اہمسا کو اپنایا اور بدھسٹ بن گیا تھا۔ عدم تشدد کا پرچار کرنے کا مقصد کسی بڑی مزاحمتی تحریک کو روکنا تھا۔ افریقی دانش ور ’’فرانز فینن‘‘ عدم تشدد کو سامراج کی ایجاد قرار دیتا ہے۔
ہندوستان میں 20ویں صدی کے ابتدائی دور میں گاندھی جی نے انگریز کے خلاف ایک "Non-violent Struggle” شروع کی۔ کچھ سکالروں کے ہاں 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانی ایک بڑی لڑائی لڑنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔ اس لیے عدم تشدد کو بہ طورِ سیاسی ہتھیار چُنا گیا۔ گاندھی جی کے عدم تشدد کے نظریے سے کچھ رہ نماؤں نے گاندھی جی کو ’’باپو‘‘ بنا دیا، جن میں نہرو، سردار پٹیل، باچا خان اور راج گوپال شامل تھے، جب کہ کچھ رہ نما گاندھی کے اہمسا کے خلاف تھے، جن میں سروجنی نائیڈو، سبھاش چندر بوس اور ابتدائی دور میں حسرت موہانی بھی۔ گاندھی جی نے اہمسا کے نام پر ہندوستان میں انگریز راج کے خلاف کسی بھی مسلح کارروائی کی ممانعت کی۔
سبھاش چندر بوس کی انڈین نیشنل آرمی جو انگریز کے خلاف مسلح گروہ تھی، کو بھی گاندھی جی نے روکنے کی بھرپور کوشش کی۔ ڈاکٹر امبیدکر، اہمسا کو ایک پائیدار آئیڈیا سمجھتے تھے، لیکن ساتھ ہی وہ گاندھی جی کو "Untouchables” (اچھوت) کے حقوق کے راستے میں رکاوٹ دیکھتے تھے۔
انڈین سکالر اروندھتی رائے گاندھی جی کے بارے میں کہتی ہیں: ’’بھوکوں کو بھوک ہڑتال پہ راغب نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اس طرح مارکسسٹ، اہمسا کو "Bourgeoisie” کی اخلاقیات کو پرولتاریوں پر تھوپنا قرار دیتے ہیں۔
اگر ہم عدم تشدد کو ایک ملک یا قوم کا عقیدہ بنالیں، تو "Right to self defence” کہاں کھڑا ہوگا؟ اگر ’’نان وائلنس‘‘ ہی مسائل کا حل ہے، تو انقلابات کی جگہ ایک سماجی تبدیلی کون سے محرکات طے کرے گی؟ اس طرح ملک کے دفاع کے لیے نیوی، فوج اور ائیر فورس کی داغ بیل ڈالی جائے گی یا دشمن کو اپنا دوسرا گال پیش کیا جائے گا؟
گاندھی کے اہمسا کے بارے میں سکالر کہتے ہیں کہ یہ تب ہی ایک موثر سیاسی ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے، جب دشمن ’’پبلک اوپینین‘‘ کا احترام کرتا ہو…… لیکن اگر مقابلہ کسی نو آبادیاتی یا نسل پرست گروہ سے ہو، تو پھر عدم تشدد ایک خیال ہی رہ جاتا ہے۔ سبھاش چندر بوس نے اہمسا کو ظلم سہنے کی قبولیت کہا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم میں برٹش راج کی حمایت کے بدلے ہندوستانیوں کو ’’راولاٹ ایکٹ‘‘ اور ’’جلیانوالہ باغ کا واقعہ‘‘ تحفے میں ملا تھا۔ اس کے بعد بھی اہمسا کا پرچار جاری رہا۔ حیران کن طور پر 1922ء کے چورا چوری واقعے کے بعد گاندھی جی قصور وار ہندوستانیوں کو ٹھہراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہندوستانی ابھی اہمسا کا نظریہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
کچھ نقادوں کے نزدیک گاندھی جی کا فلسفہ محکوموں کی اخلاقی برتری کو ان کی ضروریات سے اوپر رکھتا ہے۔
عدم تشدد کا نظریہ حکومتوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کے تحت حکومت کو کوئی سنگین خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ عدم تشدد، ڈائریکٹ وائلنس میں کبھی کبھار مفید ثابت ہوسکتا ہے، لیکن جب ’’سٹرکچرل وائلنس‘‘ کی بات آجائے (جیسے غربت، معاشی ناہم واری وغیرہ) تو پھر اس کو کیسے ڈیل کیا جائے گا؟
آج کا ہندوستان، بل کہ کوئی بھی ملک عدم تشدد کے نظریے پہ کھڑا دکھائی نہیں دے رہا۔ ’’نہروین آئیڈیلی ازم‘‘ کے بعد ’’سٹریٹیجک رئیل ازم‘‘ اور پھر ’’انڈین نیشنل ازم‘‘ میں عدم تشدد کی کوئی گنجایش نہیں۔ گاندھی جی ہندوستان کی کرنسی پر موجود تو ہے، لیکن عمل میں سردار پٹیل سے ہی ’’انسپریشن‘‘ لی جاتی ہے۔ انڈین ریاست گجرات میں سردار پٹیل کا 600 فٹ بلند مجسمہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ گاندھی جی کے آئیڈیل ازم کی جگہ سردار پٹیل کے "Pragmatic” نظریات لے چکے ہیں۔
راج موہان گاندھی نے اپنی کتاب ’’غفار خان‘‘ میں غنی خان سے جب اس سوال کے بارے میں پوچھا، تو غنی خان کا جواب تھا: ’’مَیں اپنے والد کے عدم تشدد کے نظریے سے اتفاق نہیں کرتا۔‘‘
عدم تشدد کا نظریہ بنیادی طور پر دوسرے جان داروں کی طرف انسان کی ہم دردانہ رویے کا نام تھا، لیکن اگر کسی مذہبی آئیڈیل کو "Politicise” کیا جائیم تو اس کے دور رس نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ سیاست اور سماج میں بدلاو آتا رہتا ہے…… لیکن اگر مذہب کو سیاست میں ضم کیا جائے، تو مذہبی آئیڈیل ازم ایک ہی جگہ منجمد رہتی ہے، جس سے سماجی تبدیلی سست روی کا شکار ہوجاتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے