تحریر: عدیل مغل
زمانۂ طالب علمی میں جن بڑی اور اہم کتب کا مطالہ کیا تھا، اُن میں ’’سیمون دی بووا‘‘ (Simone de Beauvoir) کی کتاب "The Second Sex” شامل تھی، جس کا ترجمہ ’’عورت‘‘ کے نام سے ہوا تھا، جو یاسر جواد صاحب کی کاوش تھی۔
عورت کو جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی تناظر میں سمجھنے کے لیے یہ کتاب کسی نادر نمونہ سے کم نہیں۔ شروع میں جب یہ کتاب خریدی، تو مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ ’’سیمون‘‘، ’’سارتر‘‘ کی دوست تھی، مگر کتاب پڑھنے پر پتا چلا کہ وہ سارتر کی صرف دوست ہی نہیں، خود بھی ایک فلسفی تھی۔
اس کتاب کے دو ابواب ’’تحلیلی نفسیاتی نقطۂ نظر‘‘ اور ’’تاریخی مادیت کا نقطۂ نظر‘‘ میں بار بار پڑھا کرتا تھا۔
یہ کتاب بچپن میں دیکھے گئے کسی خواب کی طرح ہے، جو یاد آجانے پر ماضی میں دھکیل دیتا ہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں عورت کے وجود کو مرکزی مقام حاصل ہے اور اسی حوالہ سے ’’سیمون‘‘ عورت کا سماجی، نفسیاتی اور تاریخی مطالہ کرتی ہے۔ عورت کے مقام اور آزادی کے تعین میں سیمون اس طرح رقم طراز ہے: ’’کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسانی مخلوقات کا بہ راہِ راست، فطری اور لازمی تعلق مرد اور عورت کا تعلق ہے۔ اس تعلق کی نوعیت ہی تعین کرتی ہے کہ مرد خود کو کس حد تک بہ طور جنسی وجود، بہ طور انسانی خیال کرے۔ عورت کے ساتھ مرد کا تعلق انسان سے انسان کا نہایت فطری تعلق ہے۔ چناں چہ اسی حوالے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مرد کا فطری رویہ کس حد تک انسانی ہوگیا ہے، یا انسان کس حد تک فطری وجود بن گیا ہے اور اس کی انسانی فطرت کس حد تک ’فطرت‘ بن گئی ہے۔‘‘
918 صفحات پر مبنی اس کتاب کے ہر صفحے پر آپ کو تاریخ،نفسیات اور آزادیِ نسواں کا احساس بغل گیر رہے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
