دَ رَسُو پُل

Photo by Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab

لکڑی اور لوہے کی رسی کی مدد سے بنایا گیا یہ پُل کوکارئی (سوات) کا ہے۔ اس جگہ کی خوب صورتی ہمارے ایک ہم دمِ دیرینہ کے بہ قول ’’اَن بیان ایبل‘‘ (Unbayanable) ہے۔ ہم اسے پشتو میں ’’دَ رَسُو پُل‘‘ کہتے ہیں۔ اسے انگریزی میں "Suspension Bridge” کہتے ہیں۔ اُردو میں شاید اس کے لیے ’’معلق پُل‘‘ موزوں اصطلاح ہے، باقی مَیں کوئی انجینئر نہیں ہوں، اس لیے یہ حرفِ آخر ہرگز نہیں۔
ایسا ہی ایک پُل 90ء کی دہائی میں مرغزار میں ہماری پھوپی کے گھر جاتا تھا۔ آخر میں اُس کی حالت کچھ یوں ہوگئی تھی کہ اُسے پار کرنا گویا پُلِ صراط کو پار کرنے برابر تھا۔ ہم لڑکے بالے دوڑ کر پل کے عین وسط میں کھڑے ہوکر اُس کی رسی پکڑتے اور اپنی ماؤں، دادیوں، پھوپیوں، پھوپی زاد/ خالہ زاد بہنوں ’’و علیٰ ہذاالقیاس‘‘ کا انتظار کرتے۔ جیسے ہی وہ چھے سات قدم لے کر پل کے درمیان پہنچتیں۔ ہم چوں کہ پہلے ہی سے رسّی پکڑے ہوئے ہوتے، یک دم اُچھل کود شروع کردیتے۔ اُس وقت مذکورہ خواتین کی اولاً چیخیں نکلتیں اور ثانیاً جو گُل پاشی وہ ہمارے اوپر کرتیں، الفاظ اُس صورتِ حال کو بیان کرنے سے کُلی طور پر عاجز ہیں۔
مجھے اپنی مرحوم و مغفور دادی کا ایک بار سر چکراتے ہوئے پل ہی پر بیٹھ کر یہ الفاظ آج تک یاد ہیں:’’یا د یولسمے غوثہ! پہ نیکئی راورسے!‘‘
جوشؔ ملیح آبادی کے بہ قول
میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
عمر کا بہترین حصہ ہے
اب مرغزار چم تک رسائی کے لیے ایک کنکریٹ بریج بنایا گیا ہے، جس نے مرغزار چم کی آدھی خوب صورتی کو زائل کردیا ہے۔
یہ تصویر جولائی 2023ء کو لی گئی ہے۔ پُل کراس کرنے والے سوات سے روزنامہ ڈان کے لیے کارسپانڈنس کرنے والے فضل خالق ہیں۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے