انسانی معاشرے کی سیاسی اور اقتصادی نظم کو عمومی طور پر تین بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
٭ سرکاری شعبہ (Public Sector)
٭ نجی تجارتی شعبہ (Private Sector)
٭ غیر سرکاری، غیر تجارتی شعبہ (Third Sector- NGOs)
یہ تیسرا شعبہ یعنی غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اُوز) عوامی فلاح و بہبود اور انسانی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے پہلی بار 1950ء میں اپنے چارٹر میں ’’این جی اُو‘‘ کا لفظ استعمال کیا، جس کے بعد یہ اصطلاح پوری دنیا میں رائج ہوگئی۔ آج یہ اصطلاح اس قدر عام ہے کہ غیر خواندہ افراد بھی اسے ’’این جوز‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
٭ این جی اُوز اور حکومتی ادارے:۔ اکثر لوگ بڑے بین الاقوامی اداروں جیسے "USAID”, "SDC”, "DFID”, "SIDA”, "CIDA”, "UNHCR”, "WHO”, "UNESCO” اور "UNICEF” کو این جی اُوز سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ دراصل حکومتی اور اقوامِ متحدہ کے ماتحت ادارے ہیں۔ ان کے برعکس، اصل این جی اُوز وہ تنظیمیں ہیں، جو حکومتی مداخلت کے بغیر عوامی فلاح کے لیے کام کرتی ہیں…… خاص طور پر قدرتی آفات، جنگی حالات اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے۔
٭ این جی اُوز کے ارتقائی مراحل:۔ این جی اُوز کی ترقی کو تین تاریخی ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
٭ پہلا دور (1900ء تک):۔ اس دور میں مشنری سرگرمیوں کے ذریعے بڑے پیمانے پر فلاحی کاموں کا آغاز ہوا۔ مذہبی تنظیمیں انسانیت کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ تبلیغی مقاصد بھی رکھتی تھیں۔ اس دوران میں کئی خیراتی اسکول اور اسپتال قائم کیے گئے۔ 1887ء میں امریکی ریڈ کراس جیسے بڑے ادارے قائم کیے گئے، جو انسانی امداد کے لیے سنگِ میل ثابت ہوئے۔
٭ دوسرا دور (1914ء – 1945ء):۔ اس دور میں غیر منافع بخش تنظیموں کا کردار اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ اُبھر کر سامنے آیا۔ پہلی جنگِ عظیم کے دوران میں "American Friends Service Committee (1917) اور "Save the Children (1919) جیسے ادارے بنائے گئے، جنھوں نے امداد اور فلاح و بہبود کے کام کو خیراتی سرگرمیوں سے آگے بڑھا کر پائیدار ترقی پر مرکوز کیا۔
٭ تیسرا دور (1945ء سے آج تک):۔ اس دور کی خصوصیت ہنگامی امداد سے ہٹ کر طویل المدتی ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دینا ہے۔ مذہبی تنظیموں نے بھی غیر تبلیغی فلاحی پروگرام متعارف کرائے۔ "Catholic Relief Services”, "Church World Service” اور "Lutheran World Relief” جیسی تنظیمیں قائم ہوئیں۔ اس دور میں این جی اُوز نے مقامی شراکت داروں کی استعداد بڑھانے پر بھی کام کیا، تاکہ ترقیاتی منصوبے زیادہ پائیدار بن سکیں۔
٭ این جی اُوز پر تنقید کے مختلف پہلو:۔ آج این جی اُوز پر مختلف زاویوں سے تنقید کی جاتی ہے، جس میں تین بڑے گروہ شامل ہیں:
٭ بائیں بازو کی تنقید (کمیونسٹ/ سوشلسٹ نقطۂ نظر):۔ یہ طبقہ این جی اُوز کو "USAID” اور "CIA” کے زیرِ اثر سمجھتا ہے اور الزام لگاتا ہے کہ ان اداروں نے سوشلسٹ ممالک خصوصاً سوویت یونین کے خلاف عوامی حمایت پیدا کرنے میں کردار ادا کیا۔ ان کے مطابق، این جی اُوز کو مغربی طاقتوں نے سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا۔
٭ مذہبی طبقے کی تنقید:۔ ’’یو ایس ایڈ‘‘ اور دیگر اداروں کو بھی این جی اُوز سمجھ کر یہ طبقہ این جی اُوز کو مغربی ثقافتی اثرات پھیلانے کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ ان کے نزدیک مغربی اثرات سے مراد صرف ’’فحاشی‘‘ ہے۔ حالاں کہ انہی (یو ایس ایڈ اور سی آئی اے) نے ماضی میں مذہبی گروہوں کی مدد سے مختلف ممالک میں سوویت یونین کے خلاف محاذ کھولے تھے، جن میں یہ مذہبی گروہ صفِ اوّل میں شامل تھے اور اس کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے تھے۔
٭ اندرونی تنقید (خود این جی اُوز کے اندر سے):۔ یہ طبقہ یہ نقطۂ نظر رکھتا ہے کہ این جی اُوز کو صرف فلاحی خدمات تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بل کہ حکومتوں کو عوام کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کے لیے جواب دہ بنانا چاہیے۔ کچھ لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ این جی اُوز بعض اوقات حکومت کی ذمے داریوں کو اپنے سر لے کر ریاستی اداروں کو ناکارہ یا غیر ذمے دار اور غیر جواب دہ بنا دیتی ہیں۔
٭ یو ایس ایڈ (USAID) کی معطلی اور اس پر ہونے والی بحث:۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یو ایس ایڈ کی فنڈنگ میں کٹوتی نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ کچھ افراد اس اقدام کو سراہتے ہیں، جب کہ بہت سے ماہرین اور فلاحی ادارے اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کے صحافی نکولس کرسٹف نے اپنے مضمون میں لکھا: ’’ایلون مسک نے فخریہ دعوا کیا کہ اس نے یو ایس ایڈ کو ختم کر دیا ہے، جو دنیا کے غریب ترین بچوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کرتا تھا۔ یہ ادارہ صحت، تعلیم اور انسانی ترقی کے اہم منصوبے چلاتا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اس کی بندش کے باعث مہلک بیماریوں جیسے برڈ فلو، ایبولا اور ملیریا کی نگرانی میں کمی آئی ہے، جو عالمی صحت کے لیے ایک خطرناک اقدام ہے۔‘‘
این جی اُوز کا کردار سماجی بہبود اور عالمی ترقی میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ان پر کئی قسم کی تنقید کی جاتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے صحت، تعلیم، انسانی حقوق اور ماحولیاتی تحفظ جیسے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ حکومتوں اور این جی اُوز کے درمیان بہتر ہم آہنگی اور جواب دہی کا نظام قائم کرنا ضروری ہے، تاکہ فلاحی کام موثر انداز میں جاری رہ سکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
