پیکا قانون، ماضی اور حال کی روشنی میں

Blogger Ikram Ullah Arif

نجانے کیا وجوہات تھیں کہ بابائے قوم، قائد اعظم محمد علی جناح، کی تقریر میں چھیڑ چھاڑ کرنا پڑی اور یوں نئی مملکت میں آزادیِ اظہارِ رائے کے ساتھ کھلواڑ کا آغاز ہوا۔
قارئین! جب بابائے قوم تک کو معاف نہیں کیا گیا ہے، تو پھر باقی اہلِ وطن کس شمار قطار میں ہیں؟
آج کل یہ جو ہم جیسے دیوانے اس بات پر واویلا مچائے ہوئے ہیں کہ ’’پیکا‘‘ قانون (Prevention of Electronic Crimes Act) میں زبانوں کو تالے لگا دیے گئے ہیں، یہ کوئی آج سے نہیں، بل کہ ٹھیک نئی مملکت کے وجود میں آتے ہی اس کام کا آغاز ہوا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہر آنے والے حکم ران نے اس معاملے میں اپنا حصہ کچھ اس انداز سے ڈالا کہ جانے والے حکم ران کو لوگ بہتر ماننے پر مجبور ہوئے۔
مَیں تو اُس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا، جب ایوب خان نے صحافت کو لگام ڈالنے کے لیے مختلف قوانین بنائے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ صحافت آج بھی کسی نہ کسی شکل میں چل رہی ہے، جب کہ ایوب خان کی آمریت کے دفاع میں اُس کا سگا پوتا عمر ایوب بھی ناکام دکھائی دیتا ہے۔ ایوب خان کے حاضر باش وزیر ’’ذوالفقار علی بھٹو‘‘ نے نئی پارٹی بنائی، تو وہ آغاز میں جمہوریت کے بڑے دل دادہ تھے، مگر جوں ہی اقتدار کو مستحکم پایا، تو سویلین آمریت کی وہ مثال قائم کی کہ پاکستان سیاسی تاریخ میں ’’سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔ ’’نڈر بھٹو‘‘ آزاد صحافت اور سیاسی مخالفین سے اتنا ڈر جائیں گے، اُس سے پہلے کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا…… مگر یہ ایک حقیقت تھی۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے اُنھوں ’’فیڈرل سیکورٹی فورس‘‘ نام کی تنظیم قائم کی کہ ہر مخالف آواز کو دبایا جاسکے۔
ایوب خان نے پنجاب میں اگر مخالفین کو ’’سبق‘‘سکھانے کے لیے ’’نواب آف کالا باغ‘‘ کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی، تو بھٹو نے اپنی وحشت قائم رکھنے کے لیے غلام مصطفی کھر کو سیاہ وسفید کا مالک بنادیا تھا۔ سیاسی مخالفین اور حکومت مخالف صحافیوں کو سبق سکھانے کے لیے غلام مصطفی کھر نے بھٹو کے ایما پر کیا کچھ کیا تھا، اُس کی ایک جھلک "My Feudal Lord” نامی کتاب میں ملتی ہے۔ مذکورہ کتاب تہمینہ درانی کی لکھی ہوئی ہے، جو غلام مصطفی کھر کی بیوی رہ چکی ہیں اور آج کل موجودہ وزیرِا عظم کی بیوی ہیں۔
مصنفہ نے مذکورہ کتاب میں ’’پی این اے‘‘ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، جو بھٹو مخالف تحریک تھی۔ اُس تحریک میں غلام مصطفی کھر گرفتار بھی ہوئے تھے۔ یوں مذکورہ کتاب میں بھٹو کی جانب سے سیاسی مخالفین اور مخالف آوازوں کودبانے کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
پھر ’’مردِ مومن مردِ حق‘‘ (ضیاء الحق) کے ’’ناحق مارشل لا‘‘ کا زمانہ شروع ہوا۔ یوں پوری دنیا نے دیکھا کہ صحافیوں کو برسرِعام کوڑے مارے گئے۔ آج بھٹو اور ضیاء الحق دونوں ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، جب کہ صحافت آج بھی حال کا سب سے بڑا وسیلہ ہے، جو بے آوازوں کی آواز بن رہا ہے۔ شاید اس لیے ’’پیکا‘‘ جیسے قوانین سے اس کا راستہ روکا جا رہا ہے۔
آمریتوں میں البتہ مشرف کی آمریت ایسی ضرور گزری ہے، جو اپنی تمام تر تباہیوں کے باوجود صحافت کے لیے بڑی حد تک اچھا دور ثابت ہوئی۔ نجی میڈیا پروان چڑھااور صحافیوں کے دن پھر گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب وکلا تحریک میں صحافتی آواز شامل ہوئی، تو مشرف کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور یوں اُس نے کئی ایک چینل بند کرنے کے احکامات صادر کیے۔
بعد از مشرف کہنے کو تو ’’نام نہاد سویلین حکومتیں‘‘ رہی ہیں، مگر عملاً کچھ اور نظاموں کے ساتھ عوام کا سامنا رہا۔ کیوں کہ موجودہ ’’پیکا‘‘ قانون جو عملاً صحافیوں کو نکیل ڈالنے کی کوشش ہے، کا آغاز مسلم لیگ کے دور میں ہوا تھا۔ بعد میں اس پر مزید کام تحریکِ انصاف کی حکومت میں ہوا، جہاں سے مشہورِ زمانہ ’’مثبت رپورٹنگ‘‘ کی اصطلاح رائج ہوئی۔ آج کل اگر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی مشترکہ حکومت ہے، تو بھی آزاد صحافت کو ملکی ترقی کے لیے ’’خطرہ‘‘ محسوس کیا جا رہا ہے۔ بہ ظاہر تو اس کو یہ رنگ دیا جارہا ہے کہ ’’فیک نیوز‘‘ کو کنٹرول کرنا مقصود ہے، مگر سب جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے؟
اس حوالے سے معتبر صحافی حامد میر ٹھیک کہتے ہیں کہ حکومت اول ’’فیک نیوز‘‘ کی تعریف وضع کرے، اس کے بعد قانون نافذ کرے۔
اگر واقعتا حکومت ’’فیک نیوز‘‘ کی تعریف کرتی ہے، پھر ’’فیک نیوز‘‘ کو کنٹرول کرتی ہے، تو یہ بہترین اقدام ہوگا، لیکن اگراس ضمن میں صحافت کا گلا گھونٹا جائے گا، تو ایسا کرنا ظلم ہوگا۔ کیوں کہ جہاں مخالف آوازوں کو دبایا جاتا ہے، وہاں قنوطیت اور جمود جنم لیتے ہیں، اور مذکورہ دونوں چیزیں معاشرتی ترقی کے لیے زہرِ ہلاہل سے کم نہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے