ایک وقت تھا کہ انسان غاروں اور جنگلوں میں زندگی کی بقا کی خاطر مل جل کر خاک چھاننے پر مجبور تھا۔ وہ اشاروں کی زبان میں ایک دوسرے سے بات کرتے تھے۔ شکار پر گزارہ کرتے تھے۔شکار بھی کچا ہی کھاتے تھے۔ پھر قدرت ان پر مہربان ہوگئی یا شاید انھوں نے اُکتا کے اپنی حالت بدلنے کی کوشش کی اور مہربان آگ کو دریافت کرلیا۔ اس سے وہ اپنی حفاظت بھی کرتے تھے، اسے روشنی کے لیے بھی استعمال کرتے تھے اور اس پر گوشت بھی بھون کر کھالیتے تھے۔ آگ کے اتنے ڈھیر سارے فوائد دیکھ کر کچھ انسان اسے ’’دیوتا‘‘ ماننے لگے۔
پھر ایک وقت آیا کہ انسان اشاروں کی زبان سے اُکتا گیا اور اس کے دل میں شدید خواہش اٹھی کہ کاش! وہ اپنا اظہارِ خیال کرسکے۔
پروفیسر یووال نوح ہراری کے بہ قول ایک بہت بڑی سطح پر حادثاتی تبدیلی کے سبب انسان نے بولنا سیکھ لیا۔ پھر بولنے سے لکھنے کا سفر طے ہوا اور انسان کو بولنا، لکھنا اور اپنا اظہارِ خیال کرنا اتنا اچھا لگا کہ وہ آنے والے وقتوں میں اس کے لیے دار پر لٹک گیا۔ کچھ انسانوں کو زندہ جلایا گیا۔ کچھ بولنے کی وجہ سے پابندِ سلاسل ہوئے اور کچھ انسانوں کو لکھنے پر سرِ عام کوڑے مارے گئے۔
جدید دور میں تو انسانوں کو اُٹھا کر غائب کروانے کا رواج چل پڑا ہے، لیکن فی الحال انسان کی کہانی پر واپس آتے ہیں۔
انسان نے زرعی انقلاب سے سائنسی اور صنعتی انقلاب تک کا سفر طے کیا۔ اس کے علاوہ قبائل سے لے کر ریاست اور سلطنت تک کا فاصلہ بھی انسان ہی نے ناپا۔ سردار سے بادشاہ اور پھر سلطان کی شان بھی انسان نے دیکھی…… لیکن ہر دور میں یہ دستور رہا کہ ہر حکم ران یا سلطان کے کچھ حامی اور کچھ مخالفین رہے۔ حامیوں کی تعریفوں میں مخالفین کا شور اور چیخیں بادشاہ کے کانوں تک کبھی نہیں پہنچیں۔ بادشاہ کے حامی اس کے ہر جائز و ناجائز پر واہ واہ کرتے۔
بہ قول شاعر
لگا کر آگ شہر کو یہ بادشاہ نے کہا
اٹھا ہے دل میں تماشے کا آج شوق بہت
جھکا کر سر کو سبھی شاہ پرست بول اٹھے
حضور کا شوق سلامت رہے، شہر اور بہت
لیکن تاریخ کے ترازو میں ہمیشہ توازن رہتا ہے۔ ہر دور میں بولنے اور لکھنے والے باغی ہمیشہ رہے ہیں اور ان سے ہمیشہ ہر دور کے حکم رانوں کو مسئلہ رہا ہے۔ کبھی ایک معصوم ملکہ نے ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا راگ سن سن کے منھ بنا کر یہ کہا تھا کہ ’’لوگ اگر بھوک سے مرتے ہیں، تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے!‘‘ لیکن پھر کچھ پاگلوں نے بول کر، چیخ کر اور لکھ کر ان کے تخت کا تختہ کروایا۔
آج کل پاکستان میں بھی یہی کہانی چل رہی ہے۔ حکم ران طبقہ اقتدار کے نشے میں چور ہے۔ اسے عام آدمی کے مسائل کا بالکل ادراک نہیں۔ وہ اپنے لیے تنخواہوں میں دو سو فی صد اضافہ کرواتے ہیں، یہ جانے بغیر کہ کتنے لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔ جب کوئی بولنے والا انھیں آئینہ دکھاتا ہے، ان کی بد عنوانیوں پر بات کرتا ہے، لوگوں کو آگاہ کرتا ہے، تو وہ ’’پیکا‘‘ جیسے قانون کو لاگو کرکے اس سے بولنے کا حق بھی چھین لیتے ہیں۔
شاید انھیں علم نہیں کہ بولنا تو انسان کا بنیادی حق ہے۔ آئین اس کی ضمانت دیتا ہے۔ عالمی قوانین بھی اظہار کے حق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، لیکن انھیں کیا، وہ تو روایات کی پاس داری کرتے ہیں۔ کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ سے حکم ران طبقے نے سننے کے بہ جائے منھ بند کرانے میں زیادہ دل چسپی لی ہے۔
ہمارے پاکستان کے حکم ران طبقے کو بھی یہی لگتا ہے کہ بولنے والوں کو چپ کرانا تمام مسائل کا حل ہے۔
’’پیکا‘‘ قانون بھی بس بولنے والوں کو نکیل ڈالنے کی ایک بھونڈی سی کوشش ہے۔ اس کو ’’کالا قانون‘‘ کہنے میں کوئی قباحت نہیں۔ ’’جمہوری حکومتیں‘‘ بولنے اور لکھنے والوں کو جس طرح خاموش کررہی ہیں، اس پر ایوب خان اور ضیاء الحق کی روح کو یقینا سکون محسوس ہوا ہوگا۔ کیوں کہ یہ انھی کی ’’عظمتِ رفتہ‘‘ کا تسلسل ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ مزید قوانین پر وقت ضائع کرنے کے بہ جائے بھارتی فلم ’’کوئلہ‘‘ دیکھ کر ’’امریش پوری‘‘ سے سیکھ لے کہ تمام بولنے والوں کے منھ میں کوئلہ ڈال دینا چاہیے، تاکہ وہ بولنے کی طاقت کھودیں،یا پھر ان کے ہاتھ توڑ دیں، تاکہ وہ لکھ نہ سکیں، یا پھر کچھ نیا، کچھ عجیب و غریب کیا جائے، تاکہ بولنے اور لکھنے والے، بولنے اور لکھنے کے قابل نہ رہیں۔
خیر! یہ سب کچھ تو حکومت روزِ اول سے کررہی ہے۔ ہم تو بس یہی دعا کرسکتے ہیں کہ خدا بولنے اور لکھنے والوں کا حامی و ناصر ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
