(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
میری زندگی میں پہلی بڑی تبدیلی وہ تھی، جب مَیں 1950ء میں، سکول میں داخل ہوا۔ مجھے صبح بہت جلد اُٹھنا پڑتا تھا اور سکول کے لیے تیاری کرنی پڑتی تھی۔ میرا سکول شگئی میں تھا، جو میرے گھر، افسر آباد سے بہت دور پڑتا تھا، لیکن کوئی اور متبادل نہیں تھا۔ سوات ریاست کے 4 ہزار مربع میل کے علاقے میں کوئی نجی سکول نہیں تھا۔ نصاب وہی تھا، جو اُس وقت پاکستان کے موجودہ خیبر پختوں خوا صوبے میں رائج تھا۔ امیر اور غریب دونوں کی یک ساں یونیفارم ’’ملیشا‘‘ اور ’’ڈیگال‘‘ ٹائپ کی ٹوپی تھی۔
سوات کے وہ خوش قسمت طلبہ جنھوں نے دورانِ تعلیم پڑھائی پر توجہ دی اور متوازن ذہنیت کو برقرار رکھا، انھوں نے عقیدہ اور ذات کے امتیازات سے بالاتر ہوکر عملی زندگی میں غیر معمولی بلندیاں حاصل کیں۔ کامیابی طلبہ کی لگن اور اپنے مقاصد پر توجہ دینے پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر مَیں راہ سے بھٹک نہ جاتا، تو مَیں عملی زندگی میں کچھ معقول مقام حاصل کرلیتا۔ نوجوانی کی عمر زندگی کا تعین کرتی ہے۔ اگر کوئی اپنے جذبات اور جسمانی تبدیلیوں کی رو میں بہہ نہ جائے اور 14 سال سے 18 سال کے نازک دور سے، اپنے آپ پر قابو رکھتے ہوئے، گزر جائے، تو وہ بھٹک نہیں سکتا…… لیکن اکثر نوجوان ان جذباتی لہروں میں گم ہوجاتے ہیں، اور آنکھیں کھلنے سے پہلے ہی سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
ہمارا ایک کلاس فیلو تھا جس کے والد بہت بوڑھے اور غریب تھے۔ اس کا بڑا بھائی بول اور سن نہیں سکتا تھا۔ وہ پورا سال سوئیٹر بُنتا رہتا تھا اور اس کا چھوٹا بھائی سکول جاتا تھا۔ اس کا نام فراموش خان تھا۔ بعد میں اس نے یہ نام بدل دیا تھا۔ اسے ریاست کی طرف سے سکالرشپ ملی اور اس نے پشاور یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔ مختصر عرصے کی سروس کے بعد، وہ سعودی عرب گیا اور وہاں چیف انجینئر بن گیا۔ ایک اور خوش قسمت طالب علم جس کے والد مٹی کے برتن بناتے تھے، تعلیم حاصل کی اور واپڈا کے پاور ہیڈ کے طور پر ریٹائر ہوا۔ اسی طرح، بہت سے ذہین طلبہ کو ریاست کی طرف سے پیشہ ور کالجوں میں بھیجا گیا۔ انھیں ماہانہ سکالرشپ دی جاتی اور ہر سال کتابوں کے لیے بھی ایک معقول رقم فراہم کی جاتی۔ میرے بچپن کے ایک دوست نے اپنی سکالرشپ کا آدھا حصہ اپنے والد کو بھیجنا شروع کر دیا۔ وہ بین الاقوامی شہرت کا انجینئر بنا، جس نے تربیلا ڈیم کو ڈیزائن کیا اور اس کی تعمیر کی نگرانی کی۔
سوات میں کسی حد تک مخلوط تعلیم تھی، یہاں تک کہ لڑکیوں کے لیے علاحدہ سکول بننے تک ہائی کلاسوں میں بھی۔ جو لوگ اپنی بیٹیوں کو لیڈی گریفٹھ ہائی سکول، پشاور بھیج سکتے تھے، انھوں نے انھیں بھیجا۔ بہت سی خاتون ڈاکٹرز کو ریاست کی جانب سے بھی سپانسر کیا گیا، جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے گریجویٹ ہوئیں۔ پہلی ’’بیچ‘‘ میں ڈاکٹر چاند بی بی، ڈاکٹر نور جہان اور ڈاکٹر زینت محل شامل تھیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
