سوات کے علاقے توروال، جہاں آج توروالی زبان تقریباً 140,000 افراد بولتے ہیں اور جو کبھی موجودہ بحرین تحصیل کا مکمل حصہ تھا، نے طبعی، ثقافتی، آبادیاتی اور ماحولیاتی پہلوؤں میں نمایاں تبدیلیاں دیکھی ہیں۔
یہ تبدیلیاں جدیدیت، ریاستی پالیسیوں، بیرونی ثقافتی اثرات اور ماحولیاتی چیلنجوں سے متاثر ہوئی ہیں۔
تاریخی طور پر، یہ خطہ خودکفیل تھا اور مقامی آبادی فطرت کے ساتھ قریبی ہم آہنگی میں رہتی تھی۔ تاہم، 1920ء کی دہائی میں سوات ریاست کے اس علاقے میں پھیلاو، 1969ء میں سوات کے پاکستان میں انضمام، مذہبی اثر و رسوخ میں اضافہ، معاشی ذرائع اور طریقوں کی تبدیلی اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی خطرات نے اس علاقے کی ساخت کو گہرائی سے بدل دیا۔
ماضی میں توروال کے لوگ خود کفیل تھے، زراعت، مویشی بانی اور سادہ بارٹر نظام پر انحصار کرتے تھے۔ کپڑے مقامی اون سے تیار کیے جاتے تھے اور خوراک کی قلت اکثر وسائل پر مقامی تنازعات کا باعث بنتی تھی۔ ماحولیاتی اور موسمی معلومات بنیادی طور پر مقامی موسمیاتی کیلنڈرز اور دیسی علم پر مبنی تھیں۔ یہاں کی تعمیرات زیادہ تر مقامی ماحول اور آب و ہوا کے مطابق ڈھالی جاتی تھیں۔
16ویں صدی میں اس علاقے کے لوگ غیر مسلم تھے اور ان کے اپنے دیسی نظریات اور فطرت سے جڑی روایات تھیں۔ کمیونٹی میں قیادت اُن لوگوں کو دی جاتی تھی، جو زیادہ زمین، مویشی یا جنگ جو رکھتے تھے۔ یہ نظام اس پہاڑی علاقے میں بقا کی سخت حقیقتوں پر مبنی تھا۔
جدیدیت کے اثرات نے ان روایتی ڈھانچوں کو بدل دیا۔ ابتدا میں مذہبی اثرات کے ذریعے، نئے سماجی نظام اُبھرنے لگے، جن میں مقامی روایات اور بیرونی اثرات کا امتزاج تھا۔ زمین اور حکم رانی زیادہ تر رواجی قوانین پر مبنی تھی، لیکن 1969ء میں سوات کے پاکستان میں انضمام کے بعد زمین کی ملکیت اور سماجی و اقتصادی ڈھانچے میں مزید تبدیلیاں آئیں۔ تاہم، زمین اور قدرتی وسائل پر تنازعات جیسے بنیادی مسائل اب بھی حل طلب ہیں۔
سوات ریاست کے دور میں سڑکوں کی تعمیر نے شہربسائی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پہلے سے الگ تھلگ گاؤں مزید جڑگئے، اور نئے معاشی مواقع پیدا ہوئے۔ اس سے علاقے کی آبادیاتی ساخت میں بھی تبدیلی آئی۔
1880ء میں کرنل بڈلف، جو گلگت ایجنسی کے پہلے پولی ٹیکل ایجنٹ تھے، نے اپنی کتاب ’’ہندوکش کے قبائل‘‘ میں توروالی گاؤں کی تفصیل لکھی تھی اور چیل گاؤں کو سب سے بڑا قرار دیا تھا…… لیکن سوات دریا کے ساتھ سڑک کی تعمیر نے بحرین، جو پہلے بھونال/ برنیال کہلاتا تھا، کو سب سے بڑا گاؤں بنا دیا۔
1970ء کی دہائی سے، سوات، خاص طور پر بحرین اور مدین، ملکی اور بین الاقوامی سیاحت کا مرکز بن گئے۔ تاہم، ناقص سیاحتی انتظام نے ماحولیاتی انحطاط پیدا کیا اور یہاں بیرونی لوگوں کے ذریعے جائیدادوں کی خرید و فروخت میں اضافے کا سبب ہوا۔ روایتی زراعت کی جگہ تجارتی نقد آور فصلوں نے لے لی، جس سے زمین کے استعمال میں تبدیلی اور نئے تنازعات نے جنم لیا۔
بڑے منصوبے جیسے درال ہائیڈرو پاور پروجیکٹ اور مجوزہ مدین ہائیڈرو پاور پروجیکٹ مقامی ماحولیاتی نظام اور روایتی معاش کو متاثر کر رہے ہیں، جس پر آبائی توروالی برادری کو شدید تشویش ہے۔
مذہب نے روایتی طور پر معاشرتی تنظیم میں کردار ادا کیا۔ لیکن سوات کے پاکستان میں انضمام کے بعد، ریاست کی جانب سے مذہبی تشریحات کو یک ساں بنانے کی کوششوں نے ثقافتی روایات پر اثر ڈالا۔ 20ویں صدی کے آخر میں مذہبی تفریق میں اضافہ ہوا اور سرد جنگ کے دوران میں پاکستان نے مذہبی بیانیوں کو جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جس سے شدت پسندی اور فرقہ واریت کو فروغ ملا۔
ان تبدیلیوں نے مقامی زبانوں جیسے توروالی اور گاؤری پر بھی اثر ڈالا جو کبھی بنیادی اظہار کا ذریعہ تھیں۔ ان پر اب پشتو، اُردو اور عربی کا غلبہ ہوا، جس کے باعث یہ پس منظر میں چلی گئیں۔ دیسی روایات، جیسے زبانی کہانیاں، لوک ادب، موسیقی اور تاریخی بیانیے ماند پڑ چکے ہیں۔
اُردو اور انگریزی، تعلیم کی بنیادی زبانیں بن گئی ہیں، جس سے توروالی اور دیگر داردی زبانیں نئی نسل میں معدوم ہو رہی ہیں۔
توروالی برادری کو ہمیشہ غالب نسلی گروہوں نے غلط طریقے سے پیش کیا ہے۔ حکومتی پالیسیوں نے ان کی الگ شناخت کو نظر انداز کیا، جس سے ان کی تاریخ اور روایات کو مزید حاشیے پر دھکیل دیا گیا۔ بڑھتے ہوئے معاشی دباو نے کئی توروالی اور گاؤری خاندانوں کو شہروں میں نقلِ مکانی پر مجبور کر دیا، جس سے دیہی آبادی کم ہو رہی ہے۔
معاشی تبدیلیوں نے خاندانی نظام کو متاثر کیا ہے، اور نوجوان نسل روایتی پیشوں کو ترک کر کے ملازمتوں کی تلاش میں لگ گئے ہیں، لیکن تعلیمی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے وہ مشکلات کا شکار ہیں۔
برف باری میں کمی اور بدلتے موسمی پیٹرن نے پانی کی دست یابی پر بہ راہِ راست اثر ڈالا ہے۔ مون سون بارشوں سے سیلابوں میں اضافہ ہوا ہے(جو پہلے نہیں ہوتی تھیں)، جس سے بنیادی ڈھانچے اور زراعت کو نقصان پہنچا ہے۔ جنگلات کی غیر قانونی کٹائی اور بے قابو سیاحت نے ماحولیاتی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
2010ء اور 2022ء کے سیلابوں نے مقامی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا اور لوگوں کو بے گھر کردیا، جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات واضح ہوگئے۔
توروالی لوگوں کو قانونی طور پر مقامی/ آبائی حیثیت دینے سے ان کے حقوق کی حفاظت ہوسکتی ہے۔ سیاسی نمایندگی، قدرتی وسائل کے تحفظ کے لیے پالیسیاں اور قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے اس صورتِ حال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
مقامی زبانوں میں نصاب تیار کرنا، مقامی تحقیق کو فروغ دینا اور ثقافتی تحفظ کے لیے اقدامات ضروری ہیں۔
توروالی برادری کو جدیدیت کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو قانونی حیثیت، پائیدار ترقی اور ثقافتی احیا کو یک جا کرے، تاکہ ان کی شناخت، روایات اور قدرتی وسائل کو محفوظ بنایا جاسکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
