سوات پولیس میں آج کل ایک نئی روایت پروان چڑھ رہی ہے، جہاں دیگر تمام جرائم کو پسِ پشت ڈال کر سب سے زیادہ توجہ منشیات کے عادی افراد کی گرفتاری پر دی جا رہی ہے۔ بہ ظاہر یہ ایک مثبت قدم معلوم ہوتا ہے، لیکن جب اس پالیسی کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے، تو کئی سنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔ خاص طور پر، یہ دیکھا گیا ہے کہ پولیس کی کارروائیاں صرف غریب افراد تک محدود ہیں، جب کہ منشیات کے اصل سرغنہ اور بڑے مافیا سرِعام دندناتے پھر رہے ہیں۔
یہ امر باعثِ تشویش ہے کہ سوات میں چند پولیس افسران نے اپنے تھانوں میں ’’ڈسٹرکٹ سیکورٹی برانچ‘‘ (ڈی ایس بی) کے اہل کاروں اور پولیس کے سادہ لباس میں ملبوس اہل کاروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جو سادہ لباس ہی میں مختلف علاقوں میں گشت کرتے ہیں اور عام مزدوروں، غریب نوجوانوں اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ اہل کار ان افراد کو گرفتار کرنے کے بعد ان پر تشدد سے بھی نہیں کتراتے۔ ان کی جیبوں سے پیسے اور قیمتی اشیا نکال لیتے ہیں۔ پھر ان پر منشیات رکھنے کا جھوٹا الزام لگا کر تھانے لے جاتے ہیں اور ان پر منشیات رکھنے کی دفعات لگاتے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان اہل کاروں کو علاقے میں کسی گینگ یا مافیا کے مقابلے میں زیادہ بااثر اور طاقت ور سمجھا جاتا ہے، اور عوام ان کے جبر و استحصال سے شدید تنگ آچکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آیا یہ سادہ کپڑوں میں ملبوس اہل کار خود سے گرفتاری کرنے کے مجاز ہیں بھی یا نہیں؟ یہ لوگ قانوناً عام شہریوں پر ہاتھ اٹھانے کا اختیار رکھتے ہیں کہ نہیں؟ ان سوالات کا جواب ہے کہ ’’بالکل نہیں……!‘‘
پولیس سمیت کوئی بھی سیکورٹی اہل کار پاکستانی قانون اور انسانی حقوق کے مطابق کسی بھی صورت عام شہری، چاہے وہ مجرم ہو یا ملزم، پر ہاتھ اُٹھا سکتا ہے، نہ اُسے برا بھلا ہی کَہ سکتا ہے۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ پولیس کی مذکورہ کارروائیاں حقیقی معنوں میں منشیات کے خاتمے کے لیے ہیں، یا محض اپنی ’’پراگریس‘‘ دکھانے کے لیے ہیں؟ کیوں کہ ابھی تک یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی بااثر یا امیر شخص کو اس مہم کے تحت گرفتار کیا گیا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ منشیات کے اصل فروخت کنندگان اور سمگلروں پر ہاتھ ڈالنے کی بہ جائے صرف وہ لوگ نشانے پر ہیں، جو خود ان نشہ آور اشیا کا شکار ہیں اور اگر پولیس اتنی مخلص ہے، تو پھر وہ نشے میں مبتلا افراد کو پکڑ کر جیل بھیجنے کی بہ جائے پیشہ ورانہ طور پر کام کرنے والے ’’رہیب سنٹر‘‘ میں داخل کیوں نہیں کراتی؟
بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے، تو ترقی یافتہ ممالک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے منشیات کے سمگلروں اور سپلائرز پر کارروائی کرتے ہیں، تاکہ منشیات کی جڑ کاٹی جا سکے…… لیکن سوات میں صورتِ حال یک سر مختلف ہے۔ یہاں ہر قسم کی منشیات کھلے عام فروخت ہو رہی ہے اور پولیس کا ان بڑے مجرموں پر ہاتھ ڈالنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ عوام میں یہ باتیں عام ہیں کہ بعض پولیس اہل کار خود منشیات فروشوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان سے باقاعدہ ’’حصہ‘‘ وصول کرتے ہیں، ورنہ یہ ممکن ہی نہیں کہ سوات جیسے علاقے میں منشیات کی ترسیل اتنی آسانی سے ہوسکے۔
پاکستانی قانون، خاص طور پر ’’تعزیراتِ فوج داری 1898‘‘ (Criminal Procedure Code, 1898) میں سیکشن ’’59 اے‘‘ کا جو اضافہ کیا گیا ہے، اُس کے تحت کسی بھی گرفتار شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے کسی دوست، رشتہ دار یا کسی ایسے فرد سے رابطہ کرے، جو اُس کی بھلائی میں دل چسپی رکھتا ہو۔ اس قانونی شِق کا مقصد یہ ہے کہ گرفتار شخص کو اُس کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوات میں بیش تر پولیس اسٹیشنوں میں اس قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا، اور گرفتار افراد کو اپنے گھر والوں یا عزیز و اقارب سے رابطہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ ایک کھلی ناانصافی ہے۔ کیوں کہ ایک شخص کو عدالت میں مجرم ثابت ہونے سے پہلے ہی اس کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی عمل ہے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، لیکن یہاں گنگا اُلٹی ہی بہتی ہے، جہاں غریبوں کو نشانہ بناکر پولیس اپنی کارکردگی کی خوب تشہیر کرتی ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ منشیات کا خاتمہ ضروری ہے، لیکن اگر پولیس واقعی سنجیدہ ہے، تو اسے چند اہم اقدامات کرنا ہوں گے:
1:۔ اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالا جائے:۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ منشیات مافیا، اسمگلروں اور منشیات فروخت کرنے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کرے ، نہ کہ صرف عادی افراد کو نشانہ بنائے۔
2:۔ بے گناہ افراد کو ہراساں کرنا بند کیا جائے:۔ جو مزدور، دکان دار یا عام شہری روزگار کے لیے باہر نکلتے ہیں، اُنھیں بلاوجہ گرفتار کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کا عمل روکا جائے۔
3:۔ سادہ لباس میں ملبوس اہل کاروں کی نگرانی کی جائے:۔ جو اہل کار سادہ لباس میں پولیس سے زیادہ طاقت ور بنے ہوئے ہیں، اُن کے اختیارات کا جائزہ لیا جائے، اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اہل کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
4:۔ عوامی شمولیت کو یقینی بنایا جائے:۔ منشیات کے خلاف جنگ میں عوام کو شامل کیا جائے اور انھیں اعتماد میں لیا جائے، تاکہ ایک مضبوط معاشرتی ڈھانچا تشکیل دیا جاسکے جو اس لعنت کے خاتمے میں مدد دے۔
یہ بات بھی ضروری ہے کہ اگر سوات پولیس واقعی منشیات کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہے، تو اسے صرف غریبوں پر ظلم کرنے کی بہ جائے اصل مجرموں کو پکڑنا ہوگا۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اہل کاروں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور منشیات مافیا کا قلع قمع کرے۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر پولیس منشیات کے خاتمے کے لیے ایمان داری سے کام کرے، تو اہلِ سوات بھی اس جنگ میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے…… لیکن اگر یہ مہم محض اپنی ترقی کے لیے چلائی جا رہی ہے اور اصل مجرموں کو تحفظ دیا جا رہا ہے، تو عوام کا اعتماد محکمہ پولیس پر مکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔ انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہو اور کسی غریب یا امیر میں تفریق نہ کی جائے۔ اگر پولیس واقعی معاشرے سے منشیات ختم کرنا چاہتی ہے، تو پھر اسے جڑ سے ختم کرنا ہوگا، نہ کہ صرف ظاہری کارروائیوں کرکے اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش کی جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
