ریاستِ سوات میں محصولات کا نظام

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
ریاستِ سوات کے قیام کے ابتدائی دنوں میں، آمدنی کے ذرائع متعین نہیں تھے اور زیادہ تر ریاستی اخراجات مینگورہ کے ایک بہت ہی امیر تاجر شمشی خان کی طرف سے کی گئی نقد امداد سے پورے کیے جاتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ بادشاہ صاحب کی ذاتی آمدنی بھی ریاست کی ضروریات کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ میانگل خاندان اُس وقت کے مروجہ معیار کے لحاظ سے خوش حال خاندانوں میں سے ایک تھا۔ اُن دنوں، کسی آدمی کی حیثیت کو اس بات سے جانچا جاتا تھا کہ اُس کے پاس کتنے نوکر ہیں؟ اپنے رشتہ داروں کا قلع قمع کرنے کے بعد میانگل برادران یعنی میانگل عبدالودود اور میانگل شیرین جان کے پاس علاقے کے کسی بھی بڑے خان سے زیادہ نوکر اور خدمت گار تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، ریاست نے اپنی آمدنی کا ذریعہ مستحکم کیا۔ ابتدائی طور پر ہر کھیت، باغ اور جانوروں کے ریوڑ سے اسلامی اُصولوں کے مطابق زکوٰۃ یا عشر جمع کیا جاتا تھا۔ بادشاہ صاحب کی جائیداد کے انتظام کو ریاستی وسائل سے الگ کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی ذاتی آمدنی کے انتظام کے لیے نگران رکھے، جو کلرک اور ’’ناظر‘‘ کی مدد سے کام کرتے تھے۔ کچھ مشہور افراد جو بادشاہ صاحب کے ذاتی منیجر کے طور پر رہ چکے ہیں، اُن میں غلام حیا (سیدو شریف)، طالع مند خان (بی اے، ایل ایل بی ملک آباد، شمو زئی) اور عقل مند خان مرزا صاحب (سیدو شریف) شامل ہیں۔ آخر الذکر غلام حیا کا بیٹا تھا اور یہ خاندان آج تک بادشاہ صاحب کے خاندان کا وفادار ہے۔
ریاست کا خزانہ سیدو شریف میں قائم کیا گیا تھا اور مختلف تحصیلوں سے اور ریاست کے مختلف داخلی مقامات پر جمع شدہ نقد آمدنی یہاں جمع کی جاتی تھی۔ ممکنہ طور پر پہلا ’’افسرِ خزانہ‘‘ محمد زرین تھا، جو حاکم محمد شیرین کا بڑا بھائی تھا اور امان کوٹ کا رہایشی تھا۔ اُسے کچھ کلرک بھی مدد فراہم کرتے تھے۔ آمدنی اور خرچ کو ریکارڈ کرنے کے لیے باقاعدہ طور پر رجسٹر رکھے گئے تھے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے، مستقل آمدنی کے ذرائع میں عشر، درآمد اور برآمد ٹیکس شامل تھے، جو ریاست کے تمام داخلی مقامات پر جمع کیے جاتے تھے۔ عشر کی وصولی ٹھیکے داروں، جنھیں ’’اجارہ دار‘‘ کہا جاتا تھا، کے ذریعے کی جاتی تھی۔
ریاست کو تقریباً 34 اکائیوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر اکائی کو تحصیل کا نام دیا گیا تھا۔ سب سے زیادہ بولی دینے والے کو اس تحصیل کے زمین داروں سے عشر جمع کرنے کا اختیار دیا جاتا تھا۔ جمع شدہ اناج کو ایک گودام میں محفوظ کیا جاتا تھا، جسے ’’امبار‘‘ (انبار) کہا جاتا تھا۔ ریاستی ملیشیا کو اس ’’امبار‘‘ سے اناج کی صورت میں ادائی کی جاتی تھی۔ اضافی مال بیچ دیا جاتا تھا اور اس کی نقد رقم ریاست کے خزانے میں جمع کی جاتی تھی۔ پھر تمام ترقیاتی کام اس نقدی سے کیے جاتے تھے، جو خزانہ کی عمارت میں موجود ہوتی تھی۔
خزانہ کے افسران میں سب سے مشہور جناب سلطان محمد صاحب تھے۔ وہ مینگورہ کے رہایشی تھے اور 1969ء میں ریاست کے انضمام تک اس اعلا عہدے پر فائز رہے۔ ہر روز، صبح سویرے وہ والی صاحب کی رہایش گاہ پر موجود ہوتے تھے۔ ان کے پاس ایک سیاہ رنگ کا بکسہ ہوتا تھا، جس میں دو رجسٹر ہوتے تھے۔ روزانہ کی آمدنی اور خرچ کے ایک ایک پیسے کی تفصیلات ان رجسٹروں میں درج کی جاتی تھیں۔ اجازت ملنے پر افسرِ خزانہ باکس کو اپنے کندھے پر رکھ کر دروازے میں داخل ہوتے۔ ایک پہرے دار ان سے باکس لے لیتا اور اسے والی صاحب کے سامنے میز پر رکھ دیتا۔ وہ ہر اندراج خود چیک کرتے اور اس پر دستخط کرتے۔
آمدنی کی دیکھ بھال کے لیے ایک وزیرِ مال تعینات تھا، جو حکم ران کی جانب سے تمام کارروائیوں کی نگرانی کرتا تھا اور تمام آمدنی کے ذرائع کو کنٹرول کرتا تھا۔
٭ اضافی نوٹ از مؤلف:۔
شمشی خان نے ریاست کو 20 ہزار وپے "Donate” کیے تھے۔ یہ بات مجھے میرے والد صاحب (محمد عظیم مرزا) نے اور میانگل عدنان اورنگزیب (مرحوم) نے خود بتائی تھی۔
مجھے والد صاحب نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب ریاست کی مالی حالت بہتر ہوئی، تو بادشاہ صاحب نے شمشی خان کو وہ روپیا واپس کرنا چاہا، مگر اس نے منع کیا اور جب بادشاہ صاحب اس کی بیمار پرسی کے لیے اس کے گھر گئے تھے، تو اس نے اپنے دونوں بیٹوں کی سرپرستی کی خواہش ظاہر کی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے