ایل پی جی ٹینکرز میں دھماکوں کا بڑھتا رجحان

Blogger Qadar Khan Yousafzai

پنجاب کے مختلف علاقوں میں ایل پی جی (لیکوئیفائیڈ پیٹرولیم گیس) کے ٹینکروں میں ہونے والے دھماکوں کی خطرناک لہر نے عوام میں شدید خوف و ہراس پھیلا دیا ہے۔ ان حادثات کے پیچھے ایک پیچیدہ اور غیر قانونی کاروبار چھپا ہوا ہے، جو کئی سطحوں پر انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ اس غیر قانونی کاروبار میں نہ صرف چوری اور دھوکا دہی شامل ہے، بل کہ یہ ایک ایسے منظم مافیا کی نشان دہی کرتا ہے جو حکومتی اداروں کی نظروں سے اوجھل رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایل پی جی کے ٹینکروں میں دھماکوں کے پے در پے واقعات کے بعد یہ سوال مزید شدت اختیار کرگیا ہے کہ آخر یہ حادثے محض اتفاق ہیں، یا کسی سوچی سمجھی مجرمانہ سازش کا حصہ؟ یہ محض غفلت کا نتیجہ نہیں، بل کہ ایک خطرناک عمل ہے، جس میں کچھ لوگ اپنی مالی منفعت کے لیے عوامی جانوں کو داو پر لگا رہے ہیں۔
حال ہی میں ملتان کے صنعتی علاقے میں ایل پی جی باؤزر کے دھماکے نے کئی قیمتی جانوں کو نگل لیا اور ساتھ ہی بھاری مالی نقصان کا سبب بھی بنا۔ اسی روز ڈیرہ غازی خان کے انڈس ہائی وے پر کوٹ چھٹہ کے قریب ایک اور دھماکا ہوا۔ ان دونوں واقعات میں ایک مشترک عنصر سامنے آیا، وہ ہے ایل پی جی باؤزرز میں چوری شدہ گیس کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کرنا۔ یہ طریقۂ واردات اس قدر عام ہوچکا ہے کہ اب ایل پی جی کے کسی بھی ٹینکر کی اصلیت پر یقین کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ایل پی جی ایک حساس ایندھن ہے، جو خاص دباو کے تحت ذخیرہ اور منتقل کیا جاتا ہے۔ جب کسی ٹینکر میں گیس کی مطلوبہ مقدار کو چوری کرکے اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل کردی جاتی ہے، تو دباو کا توازن بگڑ جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دھماکے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ایل پی جی کے ٹینکروں میں عام طور پر 100 سے 220 PSI تک دباو ہوتا ہے، لیکن جب گیس کی مقدار کم کرکے اس میں کاربن شامل کیا جاتا ہے، تو یہ دباو غیر متوازن ہوجاتا ہے اور کسی بھی وقت حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔
چوری کا یہ طریقہ نہایت منظم اور خفیہ انداز میں اپنایا جاتا ہے۔ ایل پی جی کے ٹینکروں کو مخصوص مقامات پر لے جاکر ان میں سے گیس نکالی جاتی ہے اور اس کے بدلے کاربن ڈائی آکسائیڈ یا دیگر غیر آتش گیر گیسیں داخل کی جاتی ہیں، تاکہ دباو کو معمول کے مطابق ظاہر کیا جاسکے۔ یہ عمل خاص طور پر رات کے وقت یا سنسان علاقوں میں انجام دیا جاتا ہے، تاکہ کسی کی نظر نہ پڑے۔ چوں کہ کاربن بھاری گیس ہے، اس لیے یہ ٹینکر کے نچلے حصے میں جمع ہو جاتی ہے، جب کہ اوپر کی سطح پر ایل پی جی موجود ہوتی ہے، جس سے کوئی بہ ظاہر فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی یہ ٹینکر کسی بے پروائی یا معمولی رساو کا شکار ہوتا ہے، تو ایک تباہ کن دھماکا رونما ہوجاتا ہے۔ اس دھندے میں ملوث عناصر نہ صرف قومی معیشت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، بل کہ عام شہریوں کی جانوں کے ساتھ بھی کھیل رہے ہیں۔
یہ امر تشویش ناک ہے کہ ملک میں ایل پی جی کی ترسیل کے دوران میں ہونے والی ان بے قاعدگیوں پر کوئی موثر نگرانی کا نظام موجود نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو ان سرگرمیوں سے لاعلم ہیں، یا پھر کسی مجبوری کے تحت ان پر کارروائی سے قاصر نظر آتے ہیں۔ ایل پی جی کے کسی بھی ٹینکر کی مقدار، پریشر اور اس میں موجود اجزا کی جانچ کے لیے کوئی باضابطہ اور موثر میکانزم موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کاروبار روز بہ روز پھیل رہا ہے اور اس کی تباہ کاریاں مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں۔ اگر حکومت اس مسئلے پر فوری اور سخت اقدامات نہیں کرتی، تو مستقبل میں مزید بڑے حادثات رونما ہو سکتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایل پی جی باؤزرز کی کڑی نگرانی کی جائے، ان کے دباو، مقدار اور اجزا کو مکمل طور پر چیک کرنے کا ایسا نظام تشکیل دیا جائے، جو کسی بھی غیر قانونی سرگرمی کو فوری طور پر پکڑ سکے۔
اس کے ساتھ ہی غیر قانونی ایل پی جی چوری میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی ناگزیر ہوچکی ہے۔ ایسے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لانا اور عبرت ناک سزائیں دینا ضروری ہے، تاکہ مستقبل میں کوئی بھی اس خطرناک کاروبار کا حصہ بننے کی جرات نہ کرے۔ حکومت اگر اس معاملے پر سختی سے قابو پالے، تو نہ صرف عوام کی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا ہے، بل کہ توانائی کے شعبے میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایل پی جی چوری اور اس میں کاربن کی ملاوٹ صرف ایک عام جرم نہیں، بل کہ یہ ایک ایسے خطرناک رجحان کی نشان دہی کرتا ہے، جو قومی سلامتی، معیشت اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ آیندہ ایسے سانحات سے بچا جاسکے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ایل پی جی باؤزرز کی چوری اور ملاوٹ کے خلاف سخت ترین اقدامات کیے جائیں، ورنہ اس کے اثرات ہر طبقے پر مرتب ہوں گے۔ اگر ہم نے اس سنگین مسئلے کو نظر انداز کیا، تو یہ مزید بڑے حادثات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے