’’کچالان‘‘

Journalist Comrade Amjad Ali Sahaab's Photography

اب کون سے حالات بہتر ہیں، مگر جیب جب مکمل طور پر خالی ہوا کرتی تھی، تو ’’کچالو‘‘ اُس وقت ہماری مرغوب ترین غذا ہوتا تھا۔
پسند ہر کسی کی اپنی اپنی ہے، مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ مینگورہ شہر میں تاج چوک کے کچالو تیار کرنے والے کا مقابلہ شاید ہی کوئی کر پائے۔ میرے ماموں اور اُستاد خورشید علی (میرخیل) کہتے ہیں: ’’تاج چوک کے صنوبر کے ہاتھ کا تیار کردہ کچالو ذائقے کے لحاظ سے منفرد تھا۔ اُس کے بعد باغ محلہ کے ’’کاکی‘‘ (جن کانام انھیں یاد نہیں) کے ہاتھ کا کچالو بھی ذائقے دار تھا۔‘‘
مجھے کاکی کے ہاتھ کا تیار کردہ کچالو یاد ہے۔ ہم اکثر مذکورہ کچالو کھانے کے بعد تاج چوک ہی میں قائم سوڈا واٹر والی دکان سے سوڈا کی بوتل اٹھاتے۔ اُس میں تھوڑا سا نمک ڈالتے اور جب بوتل اُبلنے لگتی، تو ہم اُسے منھ سے لگاتے، جس کی وجہ سے ڈکار پر ڈکار لینے کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ کئی بار اُبلتی بوتل حلق سے اترنے سے قبل ناک کی صفائی کا باعث بھی بنی۔ نتیجتاً آنکھوں سے پانی نکل آتا اور اس کے بعد کھانسی کا سلسلہ پھیپڑوں کی خوب ورزش کرادیتا۔
اب تاج چوک میں ایک درمیانی عمر کا شخص کچالو بیچتا ہے، جو شاید باغ محلے کے کاکی کا بیٹا ہے۔ ہاں، مگر سوڈا واٹر بیچنے والی دکان قصۂ پارینہ بن چکی ہے۔
کچالو کا ذکر ہو رہا تھا کہ ہم دمِ دیرینہ فضل خالق (کارسپانڈنٹ دی ڈیلی ڈان) نے ملابابا کے اختر علی کا حوالہ دیا۔ اختر علی کا تیار کردہ کچالو بھی ذائقے دار تھا۔ کچالو کے ساتھ اختر علی کے تیار کردہ لوبیا اور چولے کا جواب نہیں تھا۔
سوختہ نصیب اختر علی 29 فروری 2008ء کو حاجی بابا سکول میں ڈی ایس پی جاوید اقبال کے جنازے میں شریک تھا کہ خود کُش دھماکے کی نذر ہوگیا۔
26 مئی 2022ء کی شام کو دفتر سے چُھٹی کے وقت جیسے ہی جواد ہوٹل نشاط چوک کے سامنے سے گزر رہا تھا، تو وہاں کھڑی ایک ہتھ ریڑھی میں لگی قاب میں تصویر میں دیا گیا کچالو دیکھا، تو ماضیِ قریب والی اپنی خالی جیب یاد آئی۔ کچالو کو مسالا اور سرکہ کچھ اس تناسب سے دیا گیا تھا کہ چٹخارے لے لے کر پلیٹ کے ساتھ بھرپور انصاف کیا۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے