مجھے اپنی بیوی کی وفات کے بعد پہلے ہفتے میں وقت کا کوئی احساس نہیں تھا۔ وقت جیسے رُک گیا تھا۔ میرا ذہن سُن تھا اور مَیں بے حسی محسوس کر رہا تھا، کوئی احساس نہیں تھا۔ جب تعزیت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہوگئی، تو مَیں نے جان لیا کہ تنہائی مجھے بغیر کسی وارننگ کے مار رہی ہے۔ مَیں نے فوراً اپنے مشترکہ کمرے کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنا بستر ڈرائنگ روم میں منتقل کرا دیا، جسے ہم سب ہال روم کہتے تھے۔ حالاں کہ یہ اتنا بڑا نہیں کہ اسے ہال کہا جائے۔ اس دن کے بعد سے، میں گذشتہ 13 سال سے اس ہال میں رہ رہا ہوں۔ اب مَیں نے اپنی بیوی کے بغیر رہنا سیکھ لیا ہے۔ لیکن مَیں نے کبھی اپنے بالوں میں تیل نہیں لگایا اور جیسا کہ اس نے پیش گوئی کی تھی، مَیں نے بالوں کو کھو دیا ہے اور حجام کے لیے بہت تھوڑے سے بال چھوڑے ہیں۔
تبدیلی کی خاطر مَیں نے مقامی اخبارات میں کالم لکھنے شروع کیے۔ اس طرح ملک سے باہر میرے بہت سے دوست مجھ سے روابط استوار کرنے میں کام یاب ہوئے۔ کیوں کہ یہ مضامین باقاعدگی سے ’’زما سوات ڈاٹ کام‘‘ (ویب سائٹ) پر اَپ لوڈ ہوتے تھے ۔ اس طرح مَیں نے ’’عکسِ نا تمام‘‘ کے عنوان کے تحت تقریباً 700 سے زائد کالم لکھے۔
2018ء میں شعیب سنز پبلشرز کی جانب سے 117 کالموں کا انتخاب شائع کیا گیا۔ اس کے اخراجات میرے بچپن کے دوست حبیب الرحمان نے برداشت کیے، جو کئی سالوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور ایک امریکی شہری ہیں۔ اس کتاب پر ایک لاکھ پاکستانی روپے تک اخراجات آئے۔ مرحوم شہزادہ عالم زیب کے صاحب زادے اور سوات کے شاہی خاندان کے سب سے سینئر رُکن شہزادہ میاں گل اکبر زیب نے بھی دس ہزار کی رقم عطیہ کی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے روزنامہ آزادی اور روزنامہ چاند میں اُردو میں تقریباً 1100 قطعات لکھے۔ اس ذہنی مہم جوئی نے مجھے سکون بخشا اور مجھے اپنی ذاتی تکالیف سے دور رکھا، جن کے ساتھ اب تک میں نے جینا سیکھ لیا تھا۔ اس نے مجھے سوات کے اندر اور باہر، کینیڈا، یورپ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں، جہاں کہیں بھی میرے دوست اور میرے کلاس فیلوز رہتے تھے، ہزاروں قارئین سے پہچان دِلائی۔
پچھلے دو سال میں، مَیں نے ، ویب سائٹ ’’سوات انسائیکلو پیڈیا ڈاٹ کام‘‘ کے لیے انگریزی میں تقریباً 80 مضامین لکھے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ریاستِ سوات سے متعلق ہیں، جو کہ مشہور ریسرچ سکالر، ماہرِ تعلیم اور تاریخ دان جناب جلال الدین صاحب نے شروع کی ہے۔ مضامین اَب کتابی شکل میں شائع ہونے کے لیے تیار ہیں، لیکن مَیں اس کی چھپائی کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا۔ شاید اس کے ساتھ وہی معاملہ ہو، جس طرح میرے ہزاروں پشتو اشعار کے ساتھ ہوا، جو مَیں نے دریائے سوات میں بہا دیے تھے۔ اگر ان مضامین کو کتابی شکل میں شائع کیا جائے، تو یہ ریاستِ سوات پر کام کرنے والے ریسرچ سکالرز کے لیے بہت مددگار ثابت ہوں گے۔ مَیں نے اپنی سوانح عمری بھی اپنی سادہ انگریزی میں لکھی ہے، جسے جلال الدین اپنی ویب سائٹ ’’سوات انسائیکلو پیڈیا ڈاٹ کام‘‘ پر اَپ لوڈ کر دیا ہے۔ مَیں اس کے اس کام کا بہت شکر گزار ہوں۔ آج آپ اسی انگریزی خود نوشت کے اُردو ترجمے کی آخری قسط پڑھ رہے ہیں۔
مَیں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اپنی ذاتی زندگی کے بہت سے تاریک پہلوؤں کو چھپانا پڑا ہے۔ کیوں کہ مَیں سچ کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہوں اور قارئین کا ردِ عمل شاید موافق نہ ہو۔ حالاں کہ جب مَیں نے اپنے بارے میں لکھنا شروع کیا، تو مَیں نے ارادہ کیا تھا کہ مَیں اپنے قارئین کے سامنے ہر بات ایمان داری سے رکھوں گا اور انھیں اپنی رائے قائم کرنے دوں گا۔ لیکن کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جو آج بھی ہمارے معاشرے میں ممنوع سمجھے جاتے ہیں۔ میرے کچھ دوستوں نے خوف زدہ نہ ہونے اور سب کچھ لکھ دینے اور کچھ نہ چھپانے پر زور دیا، لیکن میں کم از کم اپنی ذاتی زندگی میں ایمان دار ہونے کی ہمت نہیں کرسکا، ورنہ اس سے اس کہانی کے چسکا دار پہلو میں اضافہ ہوجاتا۔ ہوسکتا ہے، مَیں اَن کہی مہم جوئیوں کو بیان کرنے کے لیے درکار ہمت جمع کر ہی لوں۔
جب مَیں ماضی کی طرف دیکھتا ہوں، تو میں یہ دعوا نہیں کرسکتا کہ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ مجھے بہت سے پچھتاوے ہیں۔ اگر مَیں اُن کاموں سے گریز کرتا، تو مَیں اب ایک مختلف شخص ہوتا۔ لیکن یہ سب ’’مکتوب‘‘ تھا اور مجھے یہ سب کرنا تھا۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ مَیں نے صرف ایک اچھا کام کیا کہ مَیں نے ڈھیر ساری کتابیں پڑھیں۔ کوئی اسے غیر معمولی سمجھے گا، لیکن میں ڈینی فشر کے لیے بھی رویا تھا، جب کچھ عیسائی لڑکوں نے اسے گڑھے میں پھینک دیا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
