کسی کام میں ماہر فرد یا نجی ادارے کو ’’کنسلٹنٹ‘‘ کہا جاتا ہے، جو ’’کنسلٹنسی‘‘ کرتا ہے۔ اس لفظ کے سادہ معنی کسی کی سہولت کاری، تربیت اور سہل کاری کرنا ہیں۔ اب سہل کاری خود ایک گھمبیر لفظ ہے، رہنے دیں۔
سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کئی کاموں کے لیے ماہر افراد یا ماہر افراد پر مشتمل کسی ادارے کو اپنے کسی کام پر مشاورت، تحقیق یا آسانی پیدا کرنے کے ٹھیکا دیتے ہیں۔ اُن کو کنسلٹنٹ کہا جاتا ہے۔
چوں کہ اس ملک کا ہر عضو عجب ہے۔ اس لیے یہاں جہاں سرکاری ادارے نااہل ہیں، وہاں پہ یہاں کے یہ کنسلٹنٹ ادارے بھی اُن سے بڑھ کر ہوتے ہیں۔
خیبر پختون خوا ہائیڈرو پاؤر اور رینویبل منصوبے کی جو رپورٹس بنائی گئی ہیں، وہ سب ان کنسلٹنٹس کی مدد سے بنوائی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں اکثر محکموں کے چمچے کنسلٹنٹ ہوتے ہیں، یعنی اُن محکموں کے اندر کے افراد سے تعلق رکھنے والے لوگ یا ادارے جن کو یہ کام دیا جاتا ہے۔ یہی طریقۂ کار اس ’’شان دار ملک‘‘ کے تعمیراتی کاموں میں بھی ہوتا ہے۔
ان کنسلٹنٹس کی مدد سے شمال میں بے طاقت اور گم نام قوموں کو ہانکا جا رہا ہے۔ کسی آفس میں بیٹھ کر ایسے کام اکثر کیے جاتے ہیں۔ جھوٹ بے تحاشا بولا جاتا ہے اور چوں کہ ہم جیسے ذہنی، سماجی اور طبعی لحاظ سے پس ماندہ لوگوں کے لیے اب بھی سڑک، پائپ، کلاس فور کی نوکری، پُل اور راستے ’’بڑے مسائل‘‘ ہیں، اس لیے یہ سرکاری محکمے یہی چیزیں ہمارے سامنے رکھ کر ہمیں رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قارئین! آپ نے 30 اکتوبر (2024ء) کے جرگے میں ان کنسلٹنٹس کی وہ پریزیٹیشن دیکھی، جب وہ ایسے فوائد گن رہے تھے!
دور کیوں جایا جائے، ہماری ساری سیاست بھی ان تین چار چیزوں (سڑک، پائپ، کلاس فور نوکری، پُل، راستہ وغیرہ) کے گرد گھومتی ہے۔ ہم نے کب کسی ایسی پالیسی یا قانون کی بات کی ہے جس کی وجہ سے ہماری یہ جدی پشتی ’’نیستی‘‘ (غربت) اور پس ماندگی مستقل طور پر دور ہوجائے۔
اس منصوبے کی تیاری میں کسی ماہر ایتھنروپولوجسٹ یا سوشیالوجسٹ کو نہیں رکھا، تاکہ وہ شمال میں ان قوموں کی آبائیت کا تعین کرتا یا ایسے ماہرینِ ماحولیات کو نہیں رکھا، تاکہ وہ پورے خطے کے ماحولیات اور یہاں ان ماحولیاتی تبدیلیوں کا جامع طور پر جائزہ لیتے۔
اسی طرح متعلقہ اداروں نے سماجی و معاشی ماہرین کو بھی نہیں رکھا کہ وہ یہاں کی مقامی معیشت پر جامع تحقیق کرتے۔
ہمیں اب یہ لڑائی اپنے مکمل اختیار کے لیے بھی لڑنی ہے اور یہ جاری رہے گی اس منصوبے سے اوپر اور پرے بھی…… وقتی فائدوں سے دور اپنی نسلوں کی خاطر……!
ہمارے ساتھ گذشتہ ہزار سالوں اور خصوصاً چار پانچ سو سالوں سے بہت کچھ ہوگیا۔ اب اس کے آگے بند باندھنے ہیں۔ بس بہت ہوچکا……!
ہمیں وقتی شہرت، واہ واہ، اور مختلف حربوں سے اپنوں کو نیچا کرنے کی روش کو بھی ترک کرنا ہوگا۔
علمی بنیادوں پر نوجوانوں کی نفسیات بھی از سر نو ترتیب دینی ہے کہ بہت گند پڑا ہے اس مستعار ثقافت میں اور اس معذور سماج میں……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
