نیمبولا (سوات کی لوک کہانی)

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
آئیے، تاریخ سے ہٹ کر کچھ بات کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسے رومانی قصے کا تذکرہ ہے، جسے آج بھی ہمارے لوک ادب میں یاد کیا جاتا ہے۔
بیگم جان، ابوہا کے ایک خوش حال شخص کی بیٹی، حسن و وقار کا ایسا پیکر تھیں، جو تصور سے بھی ماورا تھا۔ وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کی بہ نسبت بہت ذہین تھیں اور ان کی سہیلیاں ان سے بہت محبت کرتی تھیں۔ وہ فلک کا چمکتا دمکتا ستارہ تھیں، جسے اس وقت کے بنیادی دینی آداب اور مذہبی کتابیں پڑھائی جا رہی تھیں۔ ان کے استاد کا نام ملا بہادر تھا۔ وہ انتہائی سخت گیر اور نظم و ضبط کا پابند تھا اور بلا تفریق اپنے شاگردوں کو مکمل حدود میں رکھتا۔ ان کی مسجد کے مدرسے میں بیش تر گھروں کے لڑکے اور لڑکیاں پڑھتی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دن طلبہ مسجد کے صحن میں بیٹھے سبق پڑھ رہے تھے کہ کوہِ قاف کا ایک شہزادہ نیمبولا جو پریوں کے بادشاہ کا اکلوتا شہزادہ تھا، اُڑتا ہوا زمین کی سیر سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ گھر واپسی کا راستہ کھو کر نیچے آ گیا۔
وہ اپنی پرواز سے تھک کر مسجد کے صحن کے ایک کونے میں اُتر گیا۔ اچانک اسے چاندی کی گھنٹیاں بجنے جیسی ہنسی کی آواز سنائی دی۔ اس کی نظریں اس جگہ کی طرف مڑیں جہاں سے آواز آئی تھی۔ وہ جیسے مدہوش ہوگیا۔ بیگم جان کا روشن چہرہ اس کے دل پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوگیا۔ چوں کہ کوئی اسے دیکھ نہیں سکتا تھا، وہ مسجد میں آنکھوں سے اوجھل خاموشی سے موجود رہا۔
رات کا اندھیرا چھاگیا اور وہ کوہِ قاف میں واپس نہیں پہنچا۔ بادشاہ اس کے بارے میں بہت پریشان ہوا اور اسے تلاش کرنے کے لیے کئی دیو بھیجے۔ اس کی 7 خوب صورت بہنیں بھی تلاش میں شامل ہوئیں اور آخرِکار ابوہا کی مسجد میں پہنچیں اور اپنے بھائی کو سخت اذیت میں دیکھا۔ شہزادے نے انھیں اپنی محبت کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے اسے کوہ قاف پاس واپس لے جانے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا۔
بہنوں نے اسے سمجھایا کہ ایک انسان کے ساتھ اس کا ملاپ اَن ہونی بات ہے، مگر وہ نہ مانا۔ آخرِ کار وہ مایوس ہو کر کوہِ قاف واپس لوٹے اور اپنے والد کو بتایا کہ شہزادہ نمبولا کو ایک انسانی عورت سے محبت ہو گئی ہے۔
 نمبولا نے فرطِ جذبات سے بیگم جان کے چہرے کو چھونے کی کوشش کی۔ وہ اگرچہ اسے دیکھ نہ سکتی تھیں، لیکن نمبولا کی انگلیاں انھیں اپنے چہرے پر محسوس ہوئیں اور وہ خوف کے مارے بے ہوش ہو گئیں۔ ان کی حالت غیر ہوگئی اور انھیں دورے آنا شروع ہوگئے۔ جب ان کی حالت دن بہ دن خراب ہو تی گئی، تب مُلا نے اپنے دم اور تعویذ کے ذریعے نمبولا کو ڈھونڈ نکالا اور اسے ایک کوزے میں قید کر دیا۔
جلد ہی نمبولا کی سات بہنیں واپس آئیں اور اپنے بھائی کو ملا کے طلسم کے زیرِ اثر پایا۔ انھوں نے اس سے التجا کی کہ بھاری مقدار میں ہیروں کے عوض ان کے بھائی کو آزاد کر دے…… مگر وہ نہ مانا۔ بہنوں نے اسے مزید پیش کش کی ان کی ایک بہن کو غلام بنا کر رکھے اور شہزادے کو آزاد کر دے۔ تاہم ملا پھر بھی نہ مانا اور شہزادے کو زندہ جلا دیا۔
بہنیں غصے میں آئیں اور ایک رات ملا کو مار کر اُس کے مردہ جسم کو مسجد کی چھت کے شہ تیروں میں پھنسا دیا۔
اگلی صبح گاؤں کے لوگوں نے ملا کی لاش کو دیکھ لیا۔ اسے اُتار کر اس کی تدفین کر دی…… مگر نمبولا کی بہنوں نے اسے قبر سے نکالا اور ناگوہا گاؤں کے اوپر شموزئی کی پہاڑی کی ایک ناقابلِ رسائی گھاٹی میں اس کی لاش کو غار کے دروازے پر لٹکا دیا۔
کہتے ہیں کہ کئی سالوں تک، لوگ ملا بہادر کی ہڈیوں کے ٹکرانے کی آوازیں سنتے رہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے