القموت خان المعروف آکو خان، غورہ خیل یوسف زئی چکیسر سابق ریاستِ سوات شانگلہ پار کے تاریخی ’’خان کورہ‘‘ خان تھے، جن کا شجرۂ نسب ظاہر کرتا ہے کہ وہ کئی پشتوں سے بلا شرکتِ غیرے علاقہ کے مشران اور خان رہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ شانگلہ پار یعنی شانگلہ کے عظیم اور مغرور پہاڑوں کے عقب تک ریاستِ سوات کی حدود پہنچنے لگیں، تو وہاں کے بہادر سپوتوں نے سیدو بابا کے احترام کے آگے سرِ تسلیم خم رکھا اور اپنی ساری وفاداری باچا صاحب اور پھر والی صاحب کے ساتھ غیر مشروط رکھی۔ یہ ایک مشکل وقت تھا۔ فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ اندرونی اور بیرونی سیاست زوروں پر تھی۔ انگریز سرکار کا کلمہ پڑھا جاتا تھا۔ مذہبی کارڈ بہت مضبوط تھا۔ شریعت اور طریقت کے علم بردار الگ الگ اقتدار کی بساط پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ ایک الگ تاریخ رقم ہونے جا رہی تھی۔ ’’خان ازم‘‘ کا بھرم اپنی جگہ قائم تھا، قبائلی طعنے اور ڈلے الگ مطلب رکھتے تھے۔
ریاستِ سوات، شانگلہ تک کیسے پہنچی اور کن کن مراحل سے گزری؟ یہ تاریخ کا ایک دل چسپ باب ہے۔ یہ آسان بات نہیں تھی۔ یہ ادغام معمولی واقعہ نہیں تھا۔ گو کہ شانگلہ کے آبائی لوگ سوات کے رہنے والے، رشتہ دار یا ایک ہی حسب نسب رکھنے والے لوگ ہیں، جو ’’ویشوں‘‘ میں سوات سے شانگلہ گئے، یا دشمنی نے جانے پر مجبور کیا، یا کسی مادی وجہ سے جاکر آباد ہوئے، مگر ایک لمبے وقت کے بعد دوبارہ جڑنا آسان نہیں تھا۔ تب غورہ خیل نے ریاستِ سوات کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ قیام صرف زبانی نہیں تھا۔ تن، من، دھن سب وقف کر دیا۔
آکو خان کی اپنی اولاد ریاست کی جغرافیائی حدود کے محافظوں میں شامل رہی۔ خان صاحب کے بڑے بیٹے سعد اللہ خان (مرحوم) ریاستِ سوات میں صوبے دار میجر تھے۔ بعد میں پولیس سروس میں گئے اور ڈی ایس پی رینک سے سبک دوش ہوئے۔
ڈی ایس پی صاحب کے دو بیٹے مینگورہ میں رہایش پذیر ہیں۔ ڈی ایس پی صاحب کو ’’سوات‘‘ اور سوات کے نام سے محبت تھی۔ آج کے دور میں ایسے وضع دار، مہمان نواز اور صلح جو لوگ تقریباً ناپید ہیں۔
ڈی ایس پی صاحب سادہ زندگی، آسان گفت گو اور پُروقار شخصیت کے مالک تھے۔ محلہ داری اور معاشرتی تعلقات میں وہ سب پر سبقت لے جاتے تھے۔ غمی و خوشی میں اُن کی شرکت سے لگتا تھا کہ محلے کے لوگوں سے خون کا رشتہ ہو۔ بیمار پرسی انھوں نے اپنے اوپر فرض کی ہوئی تھی۔ اگر اُن کے بھتیجے، بیٹے، پوتے یا نواسے کبھی کسی کے ساتھ الجھ جاتے یا تلخ کلامی کرتے، تو وہ ردِ عمل میں ہمیشہ کہتے کہ ’’میرے بچوں کا قصور ہے۔ اُنھوں نے خیال نہیں رکھا۔ اُن سے غلطی ہوئی ہے۔ تم ناراض نہ ہونا۔ ہم سب ایک گھر کی طرح ہیں۔ ایک لوگ ہیں!‘‘ اور سامنے والا فوراً گلے لگ جاتا۔
وہ اپنے بچوں سے کہتے کہ جائز ہو یا ناجائز، کبھی کسی کے ساتھ نہ الجھنا، نہ کبھی کسی سے لڑنا، لڑنا انسان کا کام نہیں، لڑتے تو حیوان ہیں، انسان تو تہذیب کے دائرے میں رہتا ہے اور ایسے ہی اچھا لگتا ہے۔
بہت ہی مہربان، انسان دوست اور رحم دل انسان تھے ڈی ایس پی صاحب۔ اُن کے سامنے جب کوئی ’’ضلع شانگلہ‘‘ کہتا، تو اُن کو بہت برا لگتا اور غصے سے کہتے کہ ’’میرے ساتھ بٹوارا کس نے کیا ہے؟ کیسے شانگلہ اور سوات الگ کر دیے گئے ہیں؟ کیسے ایک لوگوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے؟‘‘
شانگلہ چکیسر کے رہنے والے ڈی ایس پی صاحب قدیم مینگروال تہذیب کے عینی شاہد تھے۔ مینگورہ ان کے تصور میں وفات تک ایسا ہی رہا، وہ اسی تہذیب کے امین تھے، اسی خلوص، تعلق اور بھائی چارے کو یاد کرتے تھے۔ آج بھی ان کی کمی محسوس کی جاتی ہے۔
جب ڈی ایس پی صاحب کی بیماری طول پکڑ گئی اور لوگ بیمار پرسی کے لیے جانے لگے، تو وہ کہتے کہ ’’تکلیف نہ کیا کریں۔ دعا کیا کریں۔‘‘ اُن کی زبان میں اتنی مٹھاس اور خلوص ہوتا کہ بے اختیار اُن کی صحت یابی اور لمبی زندگی کی دعا کی جاتی۔ انتقال تک مینگورہ شہر میں مقیم رہے۔ مینگورہ ہی میں انتقال کرگئے اور پھر چکیسر کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔ مینگورہ شہر میں ڈی ایس پی صاحب کی شرافت، امن پسندی اور خوش اخلاقی کا ہر جاننے والا گواہ ہے۔ اُن کے انتقال پر جاننے والے سوگوار رہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response
ڈی ایس پی صاحب کے بارے میں ایک مزدرو کے زبان سے سنا ہے کہ ہم پشاور میں چمڑے گودام میں مزدری کرتے تھے اور ڈی ایس پی صاحب کا جب بھی ہمارے سامنے سے گزر ہوتا تو ہمارے پاس اجاتے چائے پی لیتے اور جلے جاتے تھے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈی ایس پی صاحب نہایت سادہ اور قام پرست انسان تھے۔