قائدِ ملت خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد گو رنر جنرل غلام محمد نے جس طرح آمرانہ طرزِ حکومت اختیار کیا، اُس سے پاکستان کی ریاست جمہوریت کی بہ جائے اسٹیبلشمنٹ کے پنجوں میں چلی گئی۔ فیلڈماشل جنرل محمد ایوب خان نے جس طرح جمہوریت کی شمع گُل کی، وہ کسی کی دور رس نگاہوں سے اوجھل نہیں۔ 10 سالہ دورِ آمریت نے جمہوریت پر ایسی کاری ضرب لگائی، جس سے یہ ابھی تک سنبھل نہیں پائی۔ ’’قانونِ ایبڈو‘‘ سے شروع ہونے والا سلسلہ سیاست دانوں کی بے تو قیری کے لیے کافی تھا۔ سیاست کو دل کھول کر رُسوا کیا گیا، حالاں کہ اُس وقت کی قیادت ایمان داری کا پیکر تھی۔ وہ ساری کی ساری نرسری جسے سیاست سے بے دخل کیا گیا، وہ قیامِ پاکستان میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کے مخلص سپاہیوں پر مشتمل تھی اور آزادی کی جنگ میں انھوں نے بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ ایک خلا پیدا کیا گیا، جسے اسٹیبلشمنٹ نے اپنے من پسندیدہ افراد سے پُر کیا۔ قوم کے معمار زِندانوں کی نذر ہوگئے، جب کہ بیورو کریٹ ملکی زمام سنبھال بیٹھے۔ کیسے کیسے لوگ اس ملک کے مالک بنا دیے گئے۔ وہ کام جسے عدو کے ہاتھوں سر انجام پانا تھا، اپنے ہی غم گساروں کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوا۔ جمہوریت کا جنازہ پڑھا گیا اور ایک ایسی کھیپ تیار کی گئی، جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر محوِ رقص رہتی تھی۔ سیاست کا میدان سیاست دانوں کے لیے شجرِ ممنوعہ بنا دیا گیا، جس سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی حاکمیت کا نعرہ بلند کیا، تو فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کا 10 سالہ آمرانہ اختیار اپنے انجام کو پہنچا، لیکن اقتدار جنرل یحی خان کے حوالے کرکے سٹیبلشمنٹ کی ’’سپرمیسی‘‘ کو مزید ہوا دے دی۔ دسمبر 1970ء کے انتخابات سے ملک دو لخت ہوگیا، لیکن اسٹیبلشمنٹ نے پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار دینا ایک مجبوری تھی، جسے وقتی طور پر پورا کیا گیا، لیکن 5 سال کے بعد اُس قومی ہیرو کو حوالۂ دار کر دیا گیا۔ اُس کی سزائے موت کے خلاف دنیا بھر کی اپیلوں کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا گیا اور ذاتی اقتدار کے دوام کی خاطر جنرل ضیاء الحق نے ایک انتہائی مخلص، ذہین اور قوم پرست رہ نما کی زندگی کا چراغ گُل کردیا۔ قوم خود سوزیاں کرتی رہی، زِندانوں کی اذیتیں سہتی رہی، لیکن کسی کو قیدیوں کے دل کی دھڑکن سنائی نہ دی۔ قوم روتی رہی، فریاد کرتی رہی، لیکن سب کچھ جلا کر راکھ کردیا گیا۔ کیوں کہ ریاست کی ساری طاقت جنرل ضیاء الحق کی مٹھی میں بند تھی۔ 10 سال کا عرصہ جمہوری آزادیوں کی جنگ میں ضا ئع ہوگیا۔ نتیجتاً ملک غربت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔
جمہوریت کی علامت محترمہ بے نظیر بھٹو کو 7 سال تک جیلوں کی اذیتیں سہنا پڑیں۔ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ ہوا میں شعلوں کی نذر ہوا، تو دھاندلی شدہ انتخابات کے بعد اقتدار کڑی شرائط کے ساتھ محترمہ بے نظیر بھٹو کے حوالے کرکے اسٹیبلشمنٹ نے ایک دفعہ پھر سیاست دانوں کو زیرِ پا رکھنے کا اعلان کر دیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے جمہوری جد و جہد میں زِندانوں کی پروا نہ کی۔ اپنے معصوم بچوں کے ساتھ جیلوں کے باہر انتظار کی کوفت سے گزر کر انھوں نے ثابت کیا کہ وہ جمہوریت کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، مذہبی جماعتوں اور شریف برادران نے بی بی شہید کے خلاف جس سفاکیت کا مظاہرہ کیا، وہ کسی سے مخفی نہیں۔
پھر جب اسٹیبلشمنٹ کے سدھائے ہوئے گھوڑے میاں محمد نواز شریف نے ’’ووٹ کو عزت دو!‘‘ کا اعلان کیا، تو 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ جمالیا۔ عدالت نے میاں محمد نواز شریف کو عمر قید کی سزا سنا کر جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کو دوام بخشا، جس سے میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو جَلا وطنی کا سامنا کرنا پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے 2006ء میں میاں محمد نواز شریف سے ’’میثاقِ جمہوریت‘‘ کا معاہدہ کرکے سب کو حیران کر دیا۔ جنرل پرویز مشرف کے لیے یہ معاہدہ کسی ’’بلیک وارنٹ‘‘ سے کم نہیں تھا۔ لہٰذا اُس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ 27 دسمبر 2007ء میں نہتی خاتون محترمہ بے نظیر بھٹو جمہوریت کا علم بلند کرتے کرتے اپنی جان کی بازی ہار گئیں۔
اس بے رحم قتل کے بعد جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ڈانوا ڈول ہوگیا اور اُسے انتہائی ذلت اور رسوائی کے ساتھ رخصت ہونا پڑا، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا اقتدار کو قبضہ میں رکھنے کا جذبہ پھر بھی ماند نہ پڑا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جو گُل کھلائے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اب اسی علم کو اسٹیبلشمنٹ پوری قوت سے اٹھائے ہوئے ہے۔ میاں محمد نواز شریف زبان بندی کا چلہ کاٹ رہے ہیں، جب کہ ملک کی سب سے مقبول آواز عمران خان جیل کی بلند و بالا دیواروں کے پیچھے پابندِ سلاسل ہے۔ انھیں سزاؤں پر سزائیں دی جا رہی ہیں،لیکن وہ ہیں کہ ہر سزا کے بعد نئے جذبے اور جوش کے ساتھ جمہوریت کی جنگ لڑنے کے لیے سر پر کفن باندھ کر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ عدلیہ نے جس جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے، اُس سے عدلیہ کی ساری توقیر خاک میں مل گئی ہے۔ عدلیہ کا کام توآئین و قانون کی سر بلندی کو قائم رکھنا ہوتا ہے، لیکن مقامِ افسوس ہے کہ عدلیہ خود آئین و قانون کا قتل کر رہی ہے اور اسے اپنی بے توقیری کاحساس نہیں ہو رہا ۔
الیکشن کسی بھی ملک میں عوامی رائے کا پیمانہ ہوتے ہیں۔ ریاست عوامی رائے پر عمل کرکے اقتدار منتخب عوامی نمایندوں کے حوالے کر دیتی ہے۔ ڈولنڈ ٹرمپ کی مثال ہمارے سامنے ہے، لیکن پاکستان میں الیکشن چرائے جاتے ہیں اور من پسندجما عت کو اقتدار منتقل کیا جاتا ہے۔ 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں جیتنے والی جماعت کے لیے زِندانوں کے اندھیرے مقدر بنے ہو ئے ہیں اور وہ جنھیں عوام نے مسترد کیا تھا، وہ اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہیں، جو کہ جمہوریت کا کھلا قتل ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس ملک میں اندھی طاقت کا راج ہوگا یا آئین و قانون کا غلبہ ہوگا؟ خاندانی جمہوریت نے پاکستان کا چہرہ داغ داغ کر دیا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اصلی جمہوریت کی جانب پیش قدمی کی جائے اور ملک پر آئین و قانون کی حکم رانی کو یقینی بنایا جائے۔ 4 اپریل 1979ء کو ایک وزیرِ اعظم کو پھانسی دی گئی، جب کہ دوسرے وزیرِ اعظم کو 27 دسمبر 2007ء کو سرِ عام قتل کر دیا گیا۔ ایک وزیرِ اعظم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور اُسے دس سالوں کے لیے جَلا وطن کیا گیا۔ اب قرعہ عمران خان کے نام نکلا ہوا ہے اور اُسے اذیتوں کا نشانہ بنا یا ہوا ہے، تاکہ وہ گھبرا کر جَلا وطن ہونے پر آمادہ ہوجائے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ عمران خان کے جرات مندانہ انکار ہی نے اُسے عوام کا مجبوب بنا دیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ طاقت ور ہے، لیکن عوامی رائے سے زیادہ نہیں۔اب فیصلہ ہوجائے گا کہ پاکستان میں جمہوریت کا مقام کیا ہوگا؟ ہم اس وقت میڈیا کے دور میں زندہ ہیں، جس میں 4 اپریل 1979ء کی تاریخ نہیں دہرائی جاسکتی۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عوام کے حقِ حکم رانی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔ اسی میں ان کی عزت اور وقار ہے۔ عوام آمریت نہیں، جمہوریت کے طالب ہیں۔ وہ آزادی اور ووٹ کے تقدس کے علاوہ کسی بھی قسم کے حربے کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔
24 نو مبر عہدِ جمہو ریت کا کھلا اظہار تھا، لیکن جو شب گزیدہ ہو، اُسے روشنی نظر نہیں آتی۔ وہ اپنی ضد اور انا کا قیدی بن کر حقائق سے نظریں چرا تا ہے، جو قومی یکجہتی کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
