انہیلرز بارے مشہور غلط توہمات

Blogger Doctor Noman Khan Chest Specialist

’’انہیلر‘‘ (Inhaler) ایک ایسی ’’ڈیوائس‘‘ (Device) ہے، جس میں سانس کی بیماری کے لیے دوا ’’ہوا‘‘ کی صورت میں موجود ہوتی ہے، جس کو مریض کھینچ کر اپنے سینے کے اندر لے جاتاہے۔
اس ڈیوائس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں موجود دوا بہ راہِ راست مریض کے سانس کی نالیوں میں پہنچ جاتی ہے اور وہاں سے خون میں جذب ہوجاتی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ دوا کی کم مقدار مریض کے جسم کے اندر جاتی ہے، جس کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں مریض جو دوا لیتاہے، وہ مائیکرو گرام میں ہوتی ہے، جب کہ گولی (ٹیبلیٹ) اور انجکشن کی صورت میں لینے والی دوا ملی گرام اور گرام میں ہوتی ہے۔ مطلب ’’انہیلر‘‘ میں موجود دوا گولی میں موجود دواسے ایک ہزار گنا کم ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اس کے مضر اثرات بھی اتنے ہی کم ہوں گے۔
’’انہیلر‘‘ کی صورت میں لینے والی دوا کا اثر بہ راہِ راست سانس کی نالیوں پر ہوتا ہے اور بہت کم وقت میں شروع ہو کر کئی گھنٹوں تک برقرار رہتا ہے۔ انہیلر سے پھیپڑوں میں موجود انفلیمیشن کم ہوجاتی ہے، سانس کی نالیاں کھل جاتی ہیں اور بلغم باہر نکل جاتا ہے۔ انہیلر لینے کے تھوڑی دیر بعد (تقریباً آدھا گھنٹا بعد) سانس کی نالیاں کھل جاتی ہیں اور مریض کافی بہتر محسوس کرتا ہے۔
انہلیر ڈیوائسز کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ مثلاً: میٹر ڈوز انہیلرز (MDIs)، ڈرائی پاؤڈر انہیلرز (DPIs) اور سوفٹ موئسٹ انہیلرز (SMIs) وغیرہ۔ اس کے علاوہ ایمرجنسی کی صورت میں جب کہ مریض انہیلرز لینے کے قابل نہ ہو، تو نیبولائزر کے ذریعے بھی دوا بہ راہِ راست پھیپھڑوں میں پہنچائی جاتی ہے۔
انہیلرز میں ایک، دو یا تین قسم کی دوا بہ یک وقت موجود ہوسکتی ہے۔ کون سا مریض کس انہیلر کو استعمال کرے گا؟ اس کا انحصار مریض اور ڈاکٹر کی چوائس اور اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت پر ہے۔ کچھ لوگ میٹر ڈوز انہلیرز (جن کو عام طور پر پمپ یا اسپرے بھی کہا جاتا ہے) پسند کرتے ہیں، جب کہ دوسرے لوگ ڈرائی پاؤڈر انہلیرز (جن کو مشین والا کیپسول بھی کہا جاتا ہے) پسند کرتے ہیں۔ مریض کے پسند و نا پسند کے علاوہ ایک ٹیسٹ بھی کیا جاتا ہے، جس کو ’’انسپائریٹری فلو ریٹ‘‘ کہا جاتا ہے، جو کہ بتاتا ہے کہ مریض کے لیے کون سی ڈیوائس موزوں ہے۔ مریض جو بھی ڈیوائس استعمال کرتا ہو، یہ ضروری ہے کہ متعلقہ ڈاکٹر اس کو استعمال کرتے ہوئے چیک کرے کہ آیا مریض اس کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے یا نہیں؟
’’جینا گائیڈ لائنز‘‘ کے مطابق تقریباً 80 فی صد مریضوں کا انہیلرز استعمال کرنے کا طریقہ صحیح نہیں ہوتا اور تقریباً 75 فی صد مریض انہیلرز کو ڈاکٹر کے تجویز کردہ دورانیے (وقفے) سے کم استعمال کرتے ہیں۔ مریض کو طریقۂ استعمال بتانے کے علاوہ ڈیوائس میں دوا موجود ہونے یا ختم ہونے کا طریقۂ کار بھی بتانا ضروری ہے۔ انہیلرز کے بارے میں لوگوں میں موجود غلط توہمات ملاحظہ ہوں:
٭ کچھ مریضوں کے مطابق ’’انہیلرز استعمال کرنے سے انسان ان کا عادی ہوجاتا ہے اور پھر زندگی بھر ان کو استعمال کرنا پڑے گا۔‘‘ بات دراصل یہ ہے کہ انہیلرز سانس کی دائمی بیماری مثلاً: دمہ یا سی اُو پی ڈی میں تجویز کیے جاتے ہیں۔ چوں کہ یہ دونوں بیماریاں دائمی ہوتی ہیں، یعنی اکثر و بیش تر مریض کو سانس کی تکلیف رہتی ہے اور اگر مریض دوا لیتا رہے، تو اس کی بیماری کنٹرول میں رہتی ہے اور اس کی شدت کم ہوتی ہے، لیکن اگر دوا نہ لے، تو نہ صرف یہ کہ بیماری کنٹرول نہیں رہتی، بل کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی شدت بھی بڑھ جاتی ہے اور شدید دورے پڑنے (ایکسزاسربیشن) کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کو یوں سمجھایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک شخص کو بلڈ پریشر یا شوگر کی بیماری ہو اور وہ دوا لینے سے اس لیے انکار کرتا ہو کہ پھر دوا کی عادت پڑجائے گی، تو اگر اس صورت میں دوا استعمال نہ کی جائے، تو ظاہر ہے مریض کو فالج، ہارٹ اٹیک اور گردے فیل ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
٭ ’’انہیلرز میں سٹیرائڈز ہوتے ہیں اور اس سے میرے گردے خراب ہو جائیں گے۔‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر انہیلر میں سٹیرائڈز نہیں ہوتے اور جن میں ہوتے بھی ہیں، وہ انتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں (مائکرو گرام میں، جیساکہ اوپربیان کیاگیا)، اور چوں کہ ان کا بہ راہِ راست اثر زیادہ ہوتا ہے اور باقی جسم میں بہت کم مقدار میں جذب ہوجاتے ہیں، اس لیے اس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی بہت کم ہوتے ہیں۔
٭ ’’انہیلر کے بارے میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ ’’یہ پھیپھڑوں کی شدید بیماری اور آخری سٹیج میں استعمال کیے جاتے ہیں‘‘ جو کہ سراسر غلط بات ہے۔ انہیلرز دمہ یا سی اُو پی ڈی کے ابتدائی مراحل میں زیادہ فائدہ مند ہوتے ہیں۔ جب یہ بیماریاں زیادہ بگڑ جاتی ہیں، تو انہیلرز کا فائدہ بھی کم ہوجاتا ہے اور پھر دوسری ادویہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
٭ ’’انہیلر کے مقابلے میں گولی یا انجکشن کا فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔جب ہم گولی نگلتے ہیں، تو وہ معدے سے ہوتی ہوئی آنتوں میں جاکر خون میں شامل ہوتی ہے اور اس کے بعد پھیپڑوں میں پہنچ جاتی ہے۔ اس دوران میں تین کام ہوجاتے ہیں: ایک تو وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور سانس کے مریضوں کے لیے وقت بہت اہم ہوتا ہے۔ دوسرا یہ کہ پھیپڑوں تک پہنچتے پہنچتے دوا کا زیادہ تر حصہ ضائع ہوجاتا ہے۔ تیسرا یہ کہ دوا کی زیادہ مقدار بدن میں جذب ہو کر زیادہ سائیڈ ایفیکٹس کا باعث بنتی ہے۔
٭ انہیلرز استعمال کرنے سے پھیپڑے کم زور ہوجاتے ہیں۔ یہ بالکل برعکس بات ہے۔ پھیپڑے بیماری کی وجہ سے کم زور ہوجاتے ہیں، جب کہ انہیلرز کے استعمال سے یہ کم زوری یا تو ختم ہوجاتی ہے یا کم ہوجاتی ہے۔
٭ انہیلرز کے نقصانات:۔ آج کل انہیلرز کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ ڈاکٹر بھی ان کو زیادہ تجویز کرتے ہیں اور کچھ مریض اپنی طرف سے بھی ان کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر ڈرائی پاؤڈر انہیلرز کا۔ ڈرائی پاؤڈر کا استعمال باقی انہیلرز کے مقابلے میں نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا غیر ضروری استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔
سانس کے مخصوص امراض، مثلاً: دمہ اور سی اُو پی ڈی میں انہیلرز کا استعمال کیا جانا چاہیے اور وہ بھی ڈاکٹر کے تجویز کردہ نسخے کے مطابق۔ کچھ لوگ بہ یک وقت میٹر ڈوز انہیلرز اور ڈرائی پاؤڈر انہیلرز کا استعمال کرتے ہیں، جن میں موجود ادویہ یک ساں ہوتی ہیں۔ اُس صورت میں ضرورت سے زیادہ دوا استعمال ہوجاتی ہے جس کے سائیڈ ایفیکٹس بھی زیادہ ہوں گے۔
دمہ اور سی اُو پی ڈی کے علاوہ بہت کم بیماریاں ایسی ہیں جن میں انہیلرز کا استعمال تجویز کیا جاسکتا ہے، لیکن کچھ لوگ ایسی بیماریوں کے لیے بھی انہیلرز استعمال کرتے ہیں، جن میں ان کا فائدہ تو ہوتا نہیں، البتہ اُلٹا نقصان ہوتا ہے۔ مثلاً: دل کے مریضوں میں جن کے پھیپڑوں میں دل فیل ہونے کی وجہ سے پانی آتا ہے (پلمونری ایڈیمیا)، تو ایسے مریضوں کے سانس کی نالیاں پانی کی موجودگی کی وجہ سے تنگ ہوجاتی ہے۔ اُس صورت میں ایسی دوا کا استعمال زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے، جو بدن سے اضافی پانی نکال سکے (مثلاً: ڈائیوریٹیکس)۔ دل کے مریضوں کو ایسی دوا کا فائدہ بھی زیادہ ہوتا ہے، جو دل کے دھڑکن کو کم سے کم رکھے، جن کو ’’بیٹا بلاکر‘‘ کہا جاتا ہے۔ انہیلرز میں جو دوا ہوتی ہے، وہ دل کے رفتار کو تیز کرنے کا بھی سبب بنتی ہے جو کہ سانس میں دشواری کا باعث بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ’’انٹرسٹیشیل لنگ ڈیزیز‘‘ میں بھی کچھ لوگ انہیلرز استعمال کرتے ہیں، جن کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا اور مریض کے جیب پر بھاری پڑتا ہے۔ ٹی بی کی بیماری میں مبتلا افراد کو بھی انہیلرز کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے جو کہ غیر ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ غیر اخلاقی بھی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے