بیوی کے گردے کی پیوند کاری کے لیے مجھے کچھ رشتہ داروں سے قرض پر رقم لینا پڑی تھی۔ مَیں باقی سب انجینئرز کی طرح نہیں تھا، جو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اتنا کما جاتے ہیں کہ مالی طور پر محفوظ ہو جاتے ہیں۔ آپریشن کے بعد کا علاج بھی میری دسترس سے باہر تھا، لیکن ان اخراجات کا انتظام میرا بڑا بیٹا جیسے تیسے کرتا رہا۔ ادویہ بہت مہنگی اور اکثر پاکستان میں دست یاب نہیں تھیں۔ لیکن اس نے اپنی ماں کی زندگی کے آخری سانس تک اسے مینج کر ہی لیا۔ جب مَیں ریٹائر ہوا، تو سب سے پہلے جس شخص نے پیسے مانگے، وہ میری بیوی کے اپنے بھائی کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ زندگی معمول کے مطابق چلتی رہی۔ ہم کسی نہ کسی طرح ہر ماہ اس کا علاج اور چیک اَپ کرواتے رہے۔ چند سالوں بعد ڈاکٹر سے چیک اَپ ہر دوسرے مہینے ہوتا۔
اچانک سوات کی جنت نظیر وادی پر اندھیرا چھا گیا۔ ایک جنونی مُلا، شریعت کے نام پر کھڑا ہوگیا۔ حقیقت اب بھی بے یقینی، شکوک و شبہات اور متنازع نظریات میں گھری ہوئی ہے۔ یہ مُلا سوات میں کس نے پلان کیا، حکومت اس برائی کو ابتدا ہی میں روکنے میں ناکام کیوں رہی، اس نے بہت کم وقت میں ہزاروں مسلح افراد کیسے جمع کرلیے، اس نے ٹی ٹی پی کا نام کیسے اپنایا؟ اور بھی بہت سے دوسرے سوالات ہیں، جن کا جواب کوئی نہیں دے سکتا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ ملا دہشت گردی، قتل و غارت، جلاو گھیراو اور دھماکوں کی علامت بن گیا۔
وادی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ جب کبھی مسافر بس وغیرہ میں قمبر سے گزرتے، تو ہم مسلح دہشت گردوں کو واکی ٹاکیز ہاتھ میں لیے گروپوں میں کھڑا دیکھتے جو ہر شخص کو خون خوار نظروں سے دیکھ رہے ہوتے اور مزے لیتے رہے ہوتے۔ جب متعدد جھڑپوں کے بعد حتمی کارروائی کا اعلان کیا گیا، تو افواج اتنی طاقت کے ساتھ سوات میں داخل ہوئیں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ٹینک، آرٹلری، ہیلی کاپٹر، جیٹ فائٹرز اور کیا کچھ نہیں۔ یہاں تک کہ بچوں نے کوبرا، چینوک اور ہیلی کی دیگر اقسام کے بارے میں بہت کچھ جان لیا۔ انھوں نے بالائی سوات کی پہاڑیوں پر گولہ باری، بمباری اور 500 سے 1000 پاؤنڈ تک کے توپ خانے کو دیکھا۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا، جب سواتیوں کو گھر چھوڑنے کو کہا گیا۔
علاقوں کے لحاظ سے انخلا مرحلہ وار کیا گیا۔ پہلے اَپر سوات اور نیکپی خیل، پھر بابوزئی اور آخر میں اباخیل، موسیٰ خیل اور شموزو۔ ہمیں نکلنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت دیا گیا۔ چناں چہ ہمارا پورا خاندان، تقریباً 60 بچے، بوڑھے اور مستورات صرف اپنے کپڑے ساتھ لے کر دو فلائنگ کوچوں میں سوار، اپنے گھروں سے نکلے اور نا معلوم منزل کی طرف سفر شروع ہوگیا۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ معاملہ کچھ بھی ہو، ہم مہاجر کیمپ میں نہیں رہیں گے۔ حکام نے ہمارے لیے ایک نیا نام متعارف کرایا، آئی ڈی پی، یعنی اندرونی طور پر بے گھر افراد۔ چناں چہ ہم پشاور کے علاقے ہزار خوانی گئے۔ وہاں ہم نے بھانجے اختر علی کے دوست ملک منصف کے گھر تین دن قیام کیا۔ پھر دو گھر کرائے پر لے لیے گئے اور ہم میں سے آدھے وہیں شفٹ ہوگئے۔ عام لوگوں نے سواتیوں سے بہت تعاون کیا اور ہر ممکن مدد کی۔ میرا اپنا خاندان حیات آباد فیز 6 میں میری بیوی کے چچا پروفیسر ولی محمد کے کشادہ گھر میں شفٹ ہوگیا۔ ہم وہاں 16 دن رہے اور پھر فیز 2، سیکٹر 5، حیات آباد، پشاور میں ایک مکان کے اوپری حصے میں شفٹ ہوگئے۔
ہم تقریباً دو ماہ تک وہاں رہے۔ آس پاس کے مکین بہت اچھے لوگ تھے اور وہ ہمارے ہاں برف اور پھل وغیرہ بھیجتے۔ مسجد عمار بن یاسر کے پیش امام نے خاص طور پر لوگوں سے کہا کہ ہماری ہر ممکن مدد کریں۔ بہت سے سواتی حیات آباد کے مختلف سیکٹرز میں کرائے کے مکانوں میں رہایش پذیر تھے۔ ہم اکثر شام کو زید مارکیٹ کے قریب گرین بیلٹ میں جمع ہوتے۔ ہمارا راشن سنٹر شاید لالہ زار نامی پارک کے قریب سوان بلڈنگ میں تھا۔
سوات کی اس آفت کو اے این پی اور پیپلز پارٹی کی اعلا قیادت نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ بے نظیر چیک پی پی پی کے مقامی رہ نما کے زیرِ کنٹرول تھے اور راشن کی فراہمی بنیادی طور پر اے این پی کے زیرِ انتظام تھی۔ ہمیں آدھے مہینے کا راشن ملا جس میں گندم، چینی، چائے، دالیں، امریکی تیل اور ترکی کے بسکٹ تھے۔ بلور برادران کے ایجنٹوں نے آئی ڈی پیز میں آٹے کے بہ جائے گندم کے تھیلے تقسیم کیے۔ ان آئی ڈی پیز کے پاس اس گندم کو ڈیلر کی منھ مانگی قیمت پر بیچنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ راشن سنٹرز، اے ٹی ایم کارڈ سنٹرز میں بلا وجہ لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں نے بے دردی سے پیٹا۔ مَیں نے دیکھا کہ سوات کے بہت سے شرفا کو دو ٹکے کے لوگوں نے بے عزت کیا۔
ملک کے اندر ’’ہجرت‘‘ کے وہ تین مہینے ذلت، بے بسی اور مشکلات سے بھرے تھے، جن کا اس سے پہلے کسی کو کبھی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ پراپرٹی ڈیلرز کو سنہری موقع ہاتھ آیا تھا۔ انھوں نے کرائے مہاجرین کی پہنچ سے دور کرلیے، لیکن ہمارے پاس ان کی شرائط پر سرنگوں ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سیاسی اژدر بھی دولت مند بننے کے لیے اپنی زندگی کے اس نادر موقعے کا خوب فائدہ اٹھاتے رہے۔ پی پی پی حکومت کی طرف سے 5000 روپے کے چیک صرف اُن لوگوں کو جاری کیے گئے، جو پشاور میں پارٹی سربراہ کو کمیشن ادا کرسکتے تھے۔ شروع میں انھوں نے 500 روپے فی چیک وصول کیا۔ بعد میں شرح بڑھا کر ہزار، دو ہزار روپے کر دی گئی۔ ہم نے اپنی فہرست ایک وکیل کو دی، جس نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ چیک کے اجرا کو یقینی بنائے گا…… لیکن کچھ دنوں کے بعد، اس نے اپنی ناکامی پر افسوس کے ساتھ فہرست واپس کردی۔ ایک ایم این اے کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ یہ کَہ کر ہزاروں چیک لے چکے ہیں کہ وہ اپنے حلقے کے آئی ڈی پیز میں تقسیم کرنے جا رہے ہیں۔ مستحق لوگوں سے زیادہ با اثر لوگ چیک حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ مَیں نے ذاتی طور پر بونیر سے پی پی پی کے ایک عہدے دار کو سیکرٹریٹ کے ایک اہل کار سے کئی چیک وصول کرتے ہوئے دیکھا، جو بونیر سے تھا اور J 5، فیز II سیکٹر میں رہتا تھا۔ بعد میں اہل کار نے مجھے بتایا کہ خان چیک حاصل کرنے کے لیے کئی دنوں سے اُن کے پیچھے تھا۔
اے ٹی ایم کارڈز کے اجرا کا اعلان ہوا، تو ہمیں کارڈز جمع کرنے کے لیے حاجی کیمپ جانے کا کہا گیا۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں آئی ڈی پیز جمع تھے۔ فوجی اہل کار ہجوم پر قابو پا رہے تھے، بوڑھوں کو بے رحمی سے پیٹ رہے تھے۔ ایک نوجوان لڑکے نے سپاہی سے بوڑھوں کے ساتھ نرمی برتنے کو کہا، اس نے کہا: ’’سیدھے ہو جاؤ ورنہ میں تجھے مار ڈالوں گا!‘‘ تب میں نے ایک شعر لکھا:
یہ سپاہی ظالمہ دا سواتیان پہ لوڑ مہ وہہ
دا بے کورہ شوی مظلومان پہ لوڑ مہ وہہ
آخرِکار تقریباً تین ماہ بعد ہمیں سوات کی جلی ہوئی جنت میں واپس جانے کی اجازت مل گئی۔ واپسی کا سفر بھی انتہائی دکھ بھرا اور ذلت آمیز تھا۔ این سی پی کاروں اور کوچوں کو پورے صوبے میں چلنے کے لیے نرمی دی گئی تھی۔ ہم نے ایک "Hiace” گاڑی کرایہ پر لی اور اپنے گھر کے لیے حیات آباد سے روانہ ہوئے۔ پراپرٹی ڈیلر ہماری 10000 روپے کی سیکورٹی واپس کرنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہا تھا۔ میرا بیٹا ہمایون رقم کی وصولی کے لیے وہیں رہ گیا اور تین دن بعد گھر آگیا۔ جب ہم شہر سے باہر نکلے، تو ایک پولیس پارٹی نے ہمیں روکا۔ ایک اے ایس آئی ایک شہنشاہ کی طرح کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور ہماری طرف دیکھنے کی زحمت تک نہیں کر رہا تھا۔ ڈرائیور اس کے پاس گیا اور بات چیت شروع ہو گئی۔ جب بات کچھ لمبی ہو چلی، تو میں وین سے باہر نکلا اور اپنے بخار میں مبتلا پوتے کو بازوؤں میں پکڑ کر اے ایس آئی سے درخواست کی کہ ہم پر رحم کریں اور ہمیں جانے دیں۔ اس نے ہڑبڑا کر مجھے کوچ میں بیٹھنے کا کہا۔ کافی تگ و دو کے بعد معاملہ 500 روپے پر طے پا گیا۔ پھر راستے میں، ہمارے واپس آنے والے خاندان کی تعداد شیر گڑھ میں درج کی گئی۔ درگئی چیک پوسٹ پر ہم نے لسٹ سپاہیوں کے حوالے کی اور ہماری دوبارہ گنتی کی گئی۔
جب ہم ابوہا میں اپنے گھر میں داخل ہوئے، تو مَیں نے سجدۂ شکر ادا کیا اور اپنے صحن کی زمین کو چوما۔ گھر میں سب کچھ بالکل ٹھیک تھا، سب کچھ ویسے کا ویسا تھا۔کوئی چیز اپنی جگہ سے ہلی تک نہ تھی۔ مین گیٹ پر گولیوں کے دو سوراخ تھے۔ اس بے رحمانہ جَلا وطنی کے تین ماہ میری بیوی کی صحت کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوئے۔ شدید گرم موسم کی وہ بے آرام راتیں، فرش پر میٹریس پر سونا اور غذائی قلت نے اس کے پہلے سے کم زور جسم پر برا اثر ڈالا تھا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
