ریاست سوات کے اداروں کا ریکارڈ

Blogger Riaz Masood

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
28 جولائی 1969ء کی شام کو، اپنی ماہانہ قوم سے خطاب میں، احمق جنرل یحییٰ خان نے سوات، دیر اور چترال کی ریاستوں کے مغربی پاکستان میں انضمام کا اعلان کیا۔ یہ عام آدمی کے لیے ایک حیرت انگیز خبر تھی۔ بڑے لوگوں کو شاید اس بات کا کچھ اندازہ تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے، لیکن ہم پر جیسے بجلی گر پڑی اور ہم سکتے میں آگئے۔
اگلے دن، کچھ ریاستی افسران کو اپنے دفتر کی میزوں کے درازوں کو خالی کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ وہ لوگ، جو کبھی والی صاحب کے ہاتھ سے کھینچی گئی لال لکیروں والے کاغذ کے چھوٹے سے ٹکڑے، یا کسی مجوزہ سکول، کالج یا ہسپتال کی عمارت کے لیے ان کے بنائے ہوئے خاکے کو سنبھال کر رکھتے تھے، اب انھیں جلا رہے تھے، یا ردی کی ٹوکریوں میں پھینک رہے تھے۔ مَیں نے ایک افسر کو دیکھا جو معدوم ریاست کا جھنڈا پھینک رہا تھا۔ مَیں نے اُس سے کہا کہ یہ مجھے دے دے۔ اُس نے اسے میری طرف پھینکا۔ مَیں اسے اپنے گھر لایا اور آج بھی یہ میرے بیٹے کے پاس اُس عظیم دور کی نشانی کے طور پر محفوظ ہے۔ مجھے یاد پڑ رہا ہے کہ یہ جھنڈا والی صاحب نے ہمارے افسر کو ودودیہ ہال کے بورڈ کے ڈیزائن کے لیے دیا تھا۔
حال ہی میں، مَیں نے کئی محقق سکالروں کو یہ شکایت کرتے ہوئے سنا ہے کہ کئی دفاتر میں ریاستی ریکارڈ کی عدم موجودگی کی وجہ سے اُنھیں اپنے تحقیقی کام کے لیے مدد نہیں مل رہی، اور اُنھیں درست اعداد و شمار تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ اُنھیں ریاستی دستاویزات، اعداد و شمار اور صحت، تعلیم اور عدالتی نظام سے متعلق معلومات تک رسائی کے لیے یک سر انکار کر دیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک نے صدیوں پرانی نوادرات، کتابیں اور دیگر تاریخی اہمیت کی حامل اشیا اب تک محفوظ رکھی ہیں۔ حیرت اور خوشی کی بات ہے کہ ہمارے بیش تر محققین کو تحقیق کے لیے، جرمنی کی لائبریریوں یا انڈیا آفس لائبریری، لندن، سے مواد مل جاتا ہے۔
برصغیر میں، ہر ایک چھوٹے سے اہم واقعے کی تفصیلات سرکاری آرکائیوز میں موجود ہیں اور سکالرز کو اپنے تحقیقی کام کے لیے ان تک رسائی فراہم کی جاتی ہے۔ انضمام کا واقعہ صدیوں پرانا نہیں، یہ صرف 50 سال پہلے ہوا۔ ہمارے پاس بھی ہر محکمے کا کچھ عددی ریکارڈ موجود ہونا چاہیے۔ مثلاً: ڈی ای اُو کے پاس یہ معلومات ہونی چاہئیں کہ جب انضمام کا اعلان کیا گیا، تو سوات میں کتنے ہائی، مڈل اور پرائمری سکول کام کر رہے تھے؟ اسی طرح، صحت کے محکمہ کو ریاست میں ڈسپنسریوں، ہسپتالوں اور کوڑھ خانوں (شفا خانۂ مرضِ جزام، Leprosium) کی تفصیلات مہیا ہونی چاہئیں۔ یہ ایک ناممکن مشن نہیں۔ اگر ضلعی انتظامیہ اپنے آنے والی نسلوں کے لیے ریکارڈ محفوظ کرنا چاہے تو……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے