جیسا کہ سب متعلقہ متاثرین جانتے ہیں کہ سیدو شریف کے باسیوں کا "Burning issue” قبرستان کے لیے زمین کی تخصیص ہے۔ اس کے پُرامن حل کے امکانات دن بہ دن موہوم ہوتے جارہے ہیں اور خدا نہ خواستہ اس مسئلے کا فوری حل نہ نکالا گیا، تو "Law and Order” کی صورتِ حال بگڑ سکتی ہے۔
اگر میرے سیدو وال بھائیوں کو برا نہ لگے، تو وہ بھی اس گھمبیرتا کے ذمے دار ہیں۔ اس تحریر کے آخر میں ریاستِ سوات کا ایک فرمان درج ہے، جو اپنی تفصیل آپ ہے۔اگر اُس حکم پر 50 فی صد بھی عمل کیا جاتا، تو آج معاملہ اس حد تک نہ پہنچتا۔
سیدو کے اصلی باشندے میاں گان، تیلیان اور محدود تعداد میں دیگر قومیتیں تھے۔ سرکاری ملازمین کی تعداد بھی اتنی زیادہ نہ تھی، بل کہ وہ اصلی سیدووالوں کے ایک چوتھائی سے بھی کم تھے۔ پھر اُن میں سے اکثر اپنے متوفین کو اپنے اپنے گاؤں لے جایا کرتے تھے۔
ادغام کے وقت سیدو شریف ایک چھوٹا سا صاف ستھرا قصبہ تھا۔ موجودہ بالیگرام مکمل خالی تھا۔ سیمنٹ گودام کے قریب کوئی 6 یا 8 سرکاری کوارٹر تھے۔ایک بڑا بنگلہ وزیرِ مال کا اور دو عدد بنگلے جس میں شاید فہم جان کپتان اور میاں جان پاچا صوبے دار میجر رہتے تھے۔ اُس مقام سے لے کر عقبہ کے محلات تک سارا علاقہ خالی تھا۔
اسی طرح جیل محلے تک کے حصے میں کوئی آبادی نہیں تھی۔ شاہین آباد میں نظرے حاجی صاحب کے خاندان کے علاوہ تین چار اور مکانات تھے۔ شاہی باغ محلے کا پورا علاقہ سرسبز کھیت پر مشتمل تھا۔ کالج کالونی میں کل 57 بنگلے تھے اور 13 یا 14 کوارٹر تھے۔ کچھ ایسی ہی حالت افسر آباد کی تھی۔
اچانک ادغام کے بعد یہاں کیا قیامت آگئی کہ لوگوں پر زمین تنگ ہونے لگی اور وہ زمین یا پرانی آبادیاں سونے کے بھاو بکنے لگیں۔ نتیجتاً قبضہ گروپ وجود میں آگئے۔ لینڈ مافیا کے وارے نیارے ہونے لگے۔ لوگ یاجوج ماجوج کی طرح ہر طرف سے سیدو کی طرف امنڈنے لگے۔
ہمیں سیدو سے بچھڑنے کا بہت دکھ تھا اور وہ درد وہ کسک آج بھی محسوس ہوتی ہے۔ میرے ایک بھائی اور والد صاحب کا انتقال سیدو شریف میں ہوا تھا، مگر ہم اُن کی لاشیں اپنے گاؤں لائے تھے۔
اب اس حوالے سے جاتے جاتے حکم رانِ سوات کا وہ مخصوص فرمان ملاحظہ ہو:
’’سیدو شریف کے مکانوں میں رہنے کی شرائط: بہ ذریعہ تحریر جاری کیا جاتا ہے کہ جو شخص سیدو شریف کا اصلی باشندہ نہ ہو، یا سرکاری ملازم نہ ہو یا اس کا اپنا گھر (سیدو شریف میں) نہ ہو تو اس کو سیدو شریف میں رہنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ (236)
اگر حکم رانِ سوات کے اس فرمان پر من و عن عمل کیا جاتا، تو آج یہ حساس مسئلہ سامنے نہ آتا۔
اللہ سے دست بہ دعا ہوں کہ وہ میرے سیدو شریف کو خون خرابے سے محفوظ رکھے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
