میری سروس کے آخری تین سال تمام تر مشکلات کے خلاف زندہ رہنے کی میری جد و جہد کا تسلسل تھے۔ مینگورہ کے ایک پرانے جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی شخص کی سربراہی میں کنٹریکٹر مافیا نے ہر ممکن طریقے سے میری مخالفت کی۔ چوں کہ وہ مجھ سے بے جا مفادات حاصل کرنے میں ناکام رہے، تو وہ سب ایک وفد کی صورت میں "XEN” ہائی وے سوات کے پاس گئے۔ اس نے ڈویژنل اکاؤنٹینٹ کو زبانی احکامات جاری کیے کہ وہ میری (راقم) طرف سے جمع کرائے گئے کسی بھی بِل کو قبول نہ کریں۔ لیکن مَیں نے لاگت کے ساتھ پیمایش پہلے ہی ریکارڈ کرلی تھی اور اکاؤنٹ برانچ میں جمع کرادی تھی۔ ہمارے درمیان مسئلہ تکنیکی تھا اور مجھے یقین تھا کہ مَیں حق پر ہوں، لیکن میرے ایک کولیگ کو بِل تبدیل کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس نے حساب کی صرف ایک لائن کا اضافہ کیا اور بہ ظاہر غلط ادائی کو باقاعدہ بنا دیا گیا۔ مَیں نے اس منصوبے کو چھوڑنا ہی بہتر سمجھا۔
لیکن قسمت کی ستم ظریفی ملاحظہ کریں۔ جب مَیں ریٹائر ہوا، تو اسی ٹھیکہ دار نے اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے بار بار مجھ سے رابطہ کیا۔ مجھے ماہانہ 2900 روپے پنشن مل رہی تھی۔ اس نے مجھے 30 ہزار روپے ماہانہ کی پیش کش کی۔ مَیں نے دو ٹوک جواب دیا اور اس کے بھیجے گئے آدمی سے کہا کہ میں اسے ’’خان‘‘ کَہ کر مخاطب نہیں کرسکتا۔ بہت بعد میں، میرے ایک سابق افسر نے ملنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا۔ وہ ایک پرائیویٹ گرلز کالج چلا رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کالج میں پی آر اُو کے طور پر اس کی مدد کرنے کو کہا۔ کیوں کہ وہ سروس کے سلسلے میں بہت دور تعینات تھا اور کالج کے لیے وقت نکالنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس نے مجھے صرف 2500 روپے ماہانہ کی آفر کی۔ مَیں نے پیش کش قبول کرلی۔ مَیں اپنے دفتر میں بیٹھ کر طالبات کے والدین سے ڈیلنگ کرتا اور کچھ دوسرے معاملات بھی نمٹاتا تھا۔
ایک دن مَیں نے سکول کی کام یابیوں کے بارے میں ایک اخباری بیان لکھا اور اسے کالج کے ایڈمنسٹریٹر کے ذریعے ایک مقامی روزنامے کو بھجوایا؛ انھوں نے اسے اگلے اور پچھلے صفحات پر شائع کیا۔ ایڈیٹر نے مجھے اپنے اخبار کے لیے لکھنے کی پیش کش کی۔ مجھے میرے مضامین کے لیے اعزازیے کی بھی پیشکش کی۔ مَیں نے انکار کر دیا۔ کیوں کہ مَیں خود کو اس قسم کی تحاریر کے لیے موزوں نہیں سمجھتا تھا۔
مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ مَیں نے اپنے ہزاروں شعر دریا برد کیے تھے، مگر سال 2005ء میں تبدیلی کی خاطر، کئی سالوں بعد مَیں نے پشتو شاعری دوبارہ شروع کی۔ وہ شاعری ’’یو طرز دوہ خیالونہ‘‘ کے نام سے جولائی 2007ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب در اصل میری شاعری اور ڈاکٹر امیر فیاض پیر خیل کی اسی شاعری کی منظوم پیروڈی پر مشتمل تھی۔
اپنی 42 سالہ طویل سروس کے دوران میں، مَیں نے مشکل حالات کا سامنا کیا، لیکن ایک چیز کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ مَیں نے اپنی 8 سالہ ریاستی خدمات کے دوران میں ذہنی طور پر خود کو مطمئن محسوس کیا۔ میرا باطن اور روح مطمئن تھے۔ مجھے کوئی پچھتاوا نہیں۔ وہ عزت و افتخار کا دور تھا اور مکمل اطمینان کا فخریہ احساس تھا۔ انضمام کے بعد اقدار بدل گئیں، مگر خود کو افسران کی ’’گُڈ بک‘‘ میں رکھنے کی بنیادیں بھی ریاستی دور میں میرے تجربات کے بالکل خلاف تھیں۔ اب وہ فیلڈ سٹاف قابلِ قبول تھا، جو 18 فی صد کے ’’جائز‘‘ کمیشن سے زیادہ کما سکتے تھے۔ اس 18 فی صد کمیشن کو شروع ہی سے ’’حلال‘‘ سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق تھا، میرے غیر لچک دار رویے کا نتیجہ اکثر اس روٹین سے انکار کی صورت میں نکلتا تھا۔
یہ میرا اپنا ذاتی اختیار کردہ معیار نہیں تھا، بل کہ یہ ہمارے خون میں شامل تھا۔ میرا بھائی سلطان محمود ڈی سی آفس سوات میں جونیئر کلرک تھا۔ سپرنٹنڈنٹ نے اسے لائسنس کلرک کے طور پر کام کرنے کو کہا۔ چناں چہ اس نے ضوابط کے مطابق کام کیا۔ ایک ماہ بعد اس کے باس نے اسے اپنا حصہ دینے کو کہا۔ سلطان حیران رہ گیا کہ وہ کیا کَہ رہا ہے ۔ اس نے بتایا کہ لائسنس ہر شہری کا حق ہے، تو وہ اس کے لیے رشوت کیوں لے؟ سپرنٹنڈنٹ نے اس کو ریکارڈ برانچ میں تبدیل کیا اور اس کی "ACR” میں لکھا کہ سلطان ایک منفی سوچ رکھنے والا اہل کار ہے۔ نادرا میں بہ طور اسسٹنٹ موقع ملا، تو اس نے ڈی سی آفس چھوڑ دیا۔ وہ نادرا سے ریجنل رجسٹرار کی حیثیت سے ریٹائر ہوا، لیکن وہ پہلے دن سے ریٹائرمنٹ تک قلاش ہی رہا۔ اب بھی وہ اپنی پنشن پر کھانے، پینے کی حد تک، گزارہ کر رہا ہے۔
مَیں یہ دعوا نہیں کرتا کہ میں ’’مسٹر کلین‘‘ تھا۔ میری چند انتہائی ناپسندیدہ عادتیں تھیں اور مَیں اعتراف کرتا ہوں کہ مَیں ان کو ترک نہیں کرسکتا تھا۔ کیوں کہ مَیں نے کبھی ایسا کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ در اصل مَیں صنفِ مخالف کے معاملے میں ناقابلِ مزاحمت تھا اور اس مغالطہ آمیز خود ساختہ مفروضے نے مجھے اکثر مشکلات میں ڈالے رکھا۔ جب ہائی ایس فلائنگ کوچز ابھی متعارف نہیں ہوئی تھیں، فورڈ ویگنیں مینگورہ اور ڈگر، پیربابا اور سواڑئی کے درمیان چلتی تھیں۔ باقاعدہ سٹینڈ رینبو ہوٹل، نیو روڈ مینگورہ کے قریب تھا۔
ایک دفعہ، مَیں عام کپڑوں میں اپنے محکمے کی نمایندگی کرنے عدالت میں حاضری کے بعد واپس ڈگر جا رہا تھا۔ پچھلی 2 نشستوں کے علاوہ ویگن تقریباً بھری ہوئی تھی۔ میرے پاس کیس سے متعلق فائلوں کا بنڈل تھا۔ چار افراد کے لیے آخری سیٹ پر دو برقع پوش خواتین براجمان تھیں۔ مَیں ایک طرف اپنے اور عورتوں کے درمیان تھوری سی جگہ چھوڑ کر بیٹھ گیا۔ ایک بہت بوڑھے آدمی کو کنڈکٹر نے میرے اور عورتوں کے درمیان بیٹھنے کو کہا۔ ان میں سے ایک نے اس پر سخت اعتراض کیا۔ کنڈکٹر نے ان سے کہا کہ یا تو بابا کو اپنے ساتھ بیٹھنے دیں یا خالی سیٹ کے لیے ادائی کریں۔ ان میں سے ایک نے یہ کہتے ہوئے مجھے قریب بیٹھنے کو کہا، ’’رورئی، تہ زما خواہ تہ کینہ!‘‘ مجھے شرم محسوس ہوئی اور میرے گال تقریباً جل رہے تھے، لیکن اس نے اصرار کیا اور کنڈکٹر نے بھی التجا کی، تو مَیں اس کے قریب ہوگیا اور بوڑھے کو اپنی نشست پر بٹھا دیا۔
گاڑی شہر سے باہر آگئی۔ میری گود میں فائلوں کا بنڈل تھا۔ میرے پاس بیٹھی عورت نے بغیر کچھ کہے پوچھے فائلیں میری گود سے اٹھائیں اور اپنے بیگ کے اوپر رکھ لیں۔ اس نے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ وہ ایک نوجوان لڑکی تھی، 18 سال کی لگ بھگ کی عمر تھی اور حیرت انگیز طور پر نہایت حسین تھی۔ مَیں اسے دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ مَیں نے سستانے کی غرض سے سامنے والی سیٹ کی پشت پر ہاتھ رکھا تھا۔ ان دنوں میرے ہاتھ صرف ہڈیاں نہیں تھے، نہ اتنے جلے ہوئے ہی تھے، جتنے اب لگ رہے ہیں۔ میرے ریشم کی طرح نرم و نازک ہاتھوں سے خون تقریباً چھلک رہا تھا۔ وہ تڑپتی نظروں سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ مَیں اس کی آنکھوں کا ہر لفظ پڑھ سکتا تھا۔ مَیں نے جلدی سے اپنا ہاتھ اپنی گود میں رکھ دیا۔ سڑک کے ایک موڑ میں اسے جھٹکا لگا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ بڑی محتاط تھی۔ اس کے ساتھ دوسری عورت کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا حرکتیں کر رہی ہے ۔ دوسری عورت، مجھے بعد میں معلوم ہوا، اس کی ماں تھی۔ وہ اپنے کسی گھریلو مسئلے کو حل کرنے کے لیے پیر بابا کے مزار پر دعا مانگنے جا رہی تھیں۔
جب ہم پیر بابا سٹاپ پر پہنچے، تو ایک ہوٹل کے قریب، جہاں سے یہ ٹورسٹ ویگنیں بہت سے شہروں کو جاتی تھیں، ہم نیچے اترے۔ مَیں نے اپنی فائلوں کا بنڈل لڑکی سے واپس لیا اور ان سے دور جانے لگا۔ مَیں کسی اسکینڈل کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ کیوں کہ مقامی لوگ اور خصوصاً ہوٹل میں اپنی باری کا انتظار کرنے والے ڈرائیور مجھ سے اچھی طرح واقف تھے۔ اچانک لڑکی نے میرا بازو ایسے پکڑ لیا جیسے ہم کوئی قریبی رشتہ دار ہوں۔ وہ دھیمی آواز میں بولی: ’’مجھے بھوک لگی ہے، کیا آپ ہمیں کھانا نہیں کھلائیں گے؟‘‘ غیر ارادی طور پر، مَیں انھیں ریسٹورنٹ کے ایک کیبن میں لے گیا اور ویٹر سے کہا کہ وہ ہمیں بہترین کھانا کھلائے۔ ہم چارپائیوں پر بیٹھے تھے۔ وہ میرے اتنے قریب تھی کہ میں اس کے جسم اور جذبات میں ہر پل بڑھتی گرمی کو محسوس کر رہا تھا۔ اچانک اس نے سرگوشی کی، ’’مَیں تمھیں ایک خوب صورت بچہ دینا چاہتی ہوں۔ چلو، اِس کے لیے قدم بڑھاتے ہیں!‘‘ مَیں سنبھل گیا اور اس کے نزدیک آنے سے بچنے کے لیے ایک طرف ہوگیا۔
کھانے کے بعد مَیں انھیں مسجد کے گیٹ پر چھوڑ کر مردان جانے والی بس میں ڈگر چلا گیا۔ مَیں یہ دعوا نہیں کر رہا کہ مَیں ایک ولی تھا، لیکن بعض اوقات میں ان ’’جارح مخلوق‘‘ کے فتنوں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا۔ مَیں ایسی کئی مہم جوئیوں کا ذکر کرنا چاہتا تھا، لیکن ’’فسادِ خلق‘‘ مجھے خاموش رہنے پر مجبور کر رہتا ہے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
