جادو ٹونا

Blogger Abu Jaun Raza

ہمارے اردگرد کی دنیا میں دو طرح کا علم پایا جاتا ہے۔ ایک وہ علم ہے جو مادی قوانین سے متعلق ہے۔ دوسرا وہ ہے جو نفس سے متعلق ہے۔ میرا اپنا وجود مادی ہے۔ مَیں مٹی سے بنا ہوں۔ میرے جسم میں ایک شخصیت پائی جاتی ہے۔ اُس شخصیت کو جاننے کا علم نفسی علوم سے تعلق رکھتا ہے۔
انسان نے مادی قوانین پر غور کیا، تجربات کیے اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج امریکہ میں موجود صدر تقریر کرتا ہے اور پوری دنیا اس کی بات حرف بہ حرف سنتی بھی ہے اور صدر کو دیکھتی بھی ہے۔ پرانے زمانے میں یہ ناممکن بات سمجھی جاتی تھی۔ اگر اُس زمانے میں ایسا واقعہ ظہور پذیر ہوتا کہ ہم کسی انسان کو جو ہزاروں میل دور بیٹھا ہے، اُس سے گفت گو کرسکیں، تو جادو سے بھی بڑھ کر کوئی بات سمجھی جاتی۔
قرآنِ کریم نے اس طرح کے ایک واقعے کو بیان کیا ہے: قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْ ئَاَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ وَ مَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ۔ (سورۃ النمل، آیت:40) ’’جس کے پاس کتاب میں سے کچھ علم تھا وہ کہنے لگا: مَیں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے آپ کے پاس حاضر کر دیتا ہوں۔ جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس نصب شدہ دیکھا، تو کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے، تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ مَیں شکر کرتا ہوں یا کفران اور جو کوئی شکر کرتا ہے، وہ خود اپنے فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے، تو میرا رب یقینا بے نیاز اور صاحبِ کرم ہے۔‘‘
آج ٹیکنالوجی پورا انسان ہزاروں میل کے فاصلے سے اُٹھا کر ہمارے سامنے لے آتی ہے۔ یہ ساری مادی علوم کی ترقی ہے۔
دوسری طرف نفسی علوم ہیں۔ اُن کی ایک جھلک ہم اکثر مشاہدہ کرتے ہیں، جن کو خواب کہتے ہیں۔ اتفاق سے انسان کی توجہ اس علم کی طرف بہت زیادہ نہیں رہی۔ جو اس کے ماہر ہیں، وہ بھی اس کو چھپا کر رکھتے ہیں۔
آج جدید دور میں انسانی نفسیات پر بہت زیادہ کام ہوا ہے۔ پیرا سائیکالوجی، ہپناٹزم کے تجربات کیے گئے ہیں۔ ہپناٹزم کے ذریعے انسان کو سُلا کر اُس کو ٹرانس میں لے کر اُس کے بچپن کی باتیں اُس کے ذہن سے نکالی جاسکتی ہیں۔ اُس کے ذہن کی بند گرہوں کو کھولا جاسکتا ہے۔
ایک بات قابلِ غور اور سمجھنے والی ہے کہ جب تک کسی علم کو لیبارٹری میں جاکر ٹیسٹ نہیں کیا جائے گا، تب تک وہ سائنس نہیں بنے گا۔ اگر سائنس نہیں بنے گا، تو پھر اُس علم کے جعلی اور دو نمبر ماہر ہر جگہ نظر آئیں گے۔ یہاں تک کہ یورپ میں بھی اس قسم کے لوگوں کی کمی نہیں۔
انسان کے ساتھ بیماری، غمی، دکھ، درد، تکلیف اور پریشانی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جب انسان پریشان ہوتا ہے، تو ہر ممکنہ کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اُس کی پریشانی دور ہوجائے۔ وہ بعض اوقات جعلی پیر فقیر یا پھر اُن لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، جو نفسی علوم کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ وہ اُس علم کے ذریعے شیطان اجنہ سے تعلق پیدا کرلیتے ہیں۔ پھر کچھ کام بن بھی جاتے ہیں اور کسی کا نقصان بھی ہوجاتا ہے۔
قرآنِ کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں جادوگروں کا تذکرہ کیا ہے، جب اُنھوں نے رسیاں پھینکیں، تو وہ سانپ بن کر حرکت کرنے لگیں۔
جادوگر بعض اوقات شعبدے بازی سے کام لیتے ہیں۔ وہ چیزوں کو اس طرح سے اور اس تیزی سے استعمال کرتے ہیں، جن کی عقلِ انسانی کوئی توجیح نہیں کرپاتی اور حیران رہ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ٹوپی میں سے خرگوش نکال لینا، تاش کے پتوں سے ٹرکس کرنا، جو پتا آپ نے چنا وہ گڈی میں ملا دینا اور پھر آپ کی ہی جیب سے برآمد کرنا وغیرہ۔
میرے ایک جاننے والے صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ سعودی عرب میں کام کرتے تھے، تو ایک کولیگ نے اُن کو بتایا تھا کہ اُس نے کسی جادوگر سے ایک منتر سیکھا تھا۔ وہ ’’ٹرک‘‘ یہ تھی کہ آپ ہاتھ میں سکہ لیں اور مضبوطی سے ہتھیلی کے درمیان رکھ کر مٹھی بند کرلیں۔ وہ صاحب آپ کی ہتھیلی کی پشت پر ایک دو مرتبہ انگلی پھیریں گے اور منتر پڑھیں گے۔ پھر جب آپ مٹھی کھولیں گے، تو سکہ غائب ہوچکا ہوگا۔ وہ سکہ غائب کرسکتے تھے، مگر واپس لانے والا منتر اُن کو نہیں آتا تھا۔
اسی طرح سے ڈاکٹر جاوید اقبال، جو علامہ اقبال کے بیٹے ہیں، نے اپنی کتاب ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں لکھا ہے کہ اُن کو باغ میں ٹہلتے ہوئے کسی کیڑے نے کاٹا جس کی وجہ سے بازو سوج گیا اور بہت تکلیف ہونے لگی۔ پیر کرم شاہ الازہری نے بازو پر پڑھ کر دم کیا، تو فوراً سوجن غائب ہوگئی اور تکلیف بھی ختم ہوگئی۔
یہ نفسی علوم ہیں۔ ان کا پہلا درجہ شعبدہ بازی ہے۔ دوسرا درجہ وہ ہے جس میں یہ نفس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور انسان کی آنکھوں کے سامنے منظر تبدیل ہوجاتا ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے یہی عمل کیا تھا، جس کی وجہ سے حاضرین اور خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رسیاں سانپ بن کر دوڑتی ہوئی نظر آئیں اور اُن کو خوف محسوس ہوا۔ آپ نے خدا کے حکم پر جب اپنا عصا ڈالا، تو اس کی وجہ سے جادوگروں کا انسانی تخیل پر اثر ختم ہوگیا اور مجمع کو دوبارہ سانپوں کی جگہ رسیاں نظر آنے لگیں، مگر حضرت موسیٰ کا عصا ایک قوی الجثہ سانپ کی شکل میں سامنے موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی وہ سمجھ گئے کہ یہ جادو نہیں، بل کہ کوئی ماورائی شے ہے۔ اُنھوں نے فوراً سجدے میں سر رکھ کر کہا کہ ’’ہم موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آئے ہیں۔‘‘
جادو کا تیسرا درجہ وہ ہے جہاں انسان شیاطین اور اجنہ سے رابطہ قائم کرلیتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بعض اوقات وہ کچھ وقتی فائدے بھی حاصل کرلیتا ہے، مگر اس کی قیمت اس کو اپنے ایمان کی شکل میں دینا پڑتی ہے۔ ان قوتوں کی وجہ سے وہ دوسروں کو نقصان پہنچاسکتا ہے، لیکن اتنا ہی جتنا خدا چاہے…… یعنی اگر کسی کی آزمایش خدا کو منظور ہے، تو ممکن ہے کہ اس طرح کے کسی انسان کی حرکتوں کی وجہ سے وہ نقصان اٹھائے، لیکن اگر وہ پختہ ایمان والا ہے، تو خدا جلد ہی اُس کی مدد کرتا ہے اور وہ انسان پریشانیوں سے نکل آتا ہے۔
جس طرح سے برے لوگ شیاطین سے رابطہ کرتے ہیں، اُسی طرح سے نفسی علوم کے ماہر بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں، جو برے عمل کی کاٹ کرتے ہیں اور جادو کا توڑ کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں، مگر ان کی پہچان ان کا تقوا اور پیسے یا کسی فائدہ کا طالب نہ ہونا ہے۔ وہ فی سبیل اللہ یہ کام کرتے ہیں اور دعاؤں کے طالب رہتے ہیں۔
ام المومنین حضرت صفیہ، یہودی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھوں نے رسولِ اکرم صلعم سے پوچھا کہ کیا کسی جھاڑ پونچھ کرنے والی خاتون کے پاس جاکر کسی بیماری کا علاج کروایا جاسکتا ہے؟ آپ صلعم نے فرمایا کہ بس یہ دیکھ لو کہ کوئی شرکیہ عمل نہ ہو۔
جادو ٹونا، جنتر منتر، زائچہ، تعویذ، نقش الواح وغیرہ جیسے عوامل میں انسان کس وقت شرک کی طرف چلا جاتا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں تھوک کے حساب سے عاملِ کامل اور جنتریاں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ یہ سب کاروبار ضعیف الاعتقاد لوگوں کی وجہ سے پھلتا پھولتا ہے۔
قرآنِ کریم نے ہاروت و ماروت دو فرشتوں کا ذکر کیا ہے، جن پر بابل میں ایک عمل اُتارا گیا۔ اُس زمانے میں جادوگروں کا بڑا زور تھا۔ اُن کی کاٹ کے لیے دو فرشتوں پر ایک عمل اُتارا گیا، جو اُنھوں نے لوگوں کو تعلیم دیا، تاکہ جادوگروں کے شر سے بچ سکیں۔ وہ لوگوں کو عمل تعلیم دینے سے پہلے بتا دیا کرتے تھے کہ اس عمل کو کسی کے درمیان تفریق کروانے کے لیے استعمال نہیں کرنا، لیکن لوگوں نے اس کے ذریعے سے میاں بیوں میں جدائی ڈالنا شروع کردی تھی۔
وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ٭ وَ مَا اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَا اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِہٖ وَ مَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَ لَا یَنْفَعُہُمْ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰیہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖ اَنْفُسَہُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔ (سورۃ البقرہ، آیت:102)
’’اور سلیمان کے عہدِ حکومت میں شیاطین جو کچھ پڑھا کرتے تھے یہ (یہودی) اس کی پیروی کرنے لگ گئے۔ حالاں کہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا، بل کہ شیاطین کفر کیا کرتے تھے، جو لوگوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتے تھے اور وہ اس (علم) کی بھی پیروی کرنے لگے، جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کیا گیا تھا، حالاں کہ یہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے، جب تک اُسے خبردار نہ کر لیں کہ (دیکھو) ہم تو صرف آزمایش کے لیے ہیں، کہیں تم کفر اختیار نہ کرلینا، مگر لوگ اُن دونوں سے وہ (سحر) سیکھ لیتے تھے، جس سے وہ مرد اور اس کی زوجہ کے درمیان جدائی ڈال دیتے، حالاں کہ اذنِ خدا کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتے تھے اور یہ لوگ اس چیز کو سیکھتے تھے، جو ان کے لیے ضرر رساں ہو اور فائدہ مند نہ ہو اور بہ تحقیق انھیں علم ہے کہ جس نے یہ سودا کیا، اُس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور کاش! وہ جان لیتے کہ اُنھوں نے اپنے نفسوں کا بہت برا سودا کیا ہے۔‘‘
 ہمارے ایک دوست کے بھائی بنک میں ملازم تھے۔ اُن کو بنک والوں نے برانچ منیجر بنا دیا۔ اُنھوں نے برانچ کی اتنی ٹینشن لی کہ بیمار پڑگئے، گم صُم بستر پر پڑے ہواؤں میں تکتے رہتے تھے۔ گھر والوں نے پہلے ڈاکٹر کو دکھایا، جب اِفاقہ نہیں ہوا، تو عاملوں اور جھاڑ پھونک والوں کی طرف رجوع کیا۔ ایک عامل اندرونِ سندھ سے بلایا جس نے گھر آنے کے آج سے 12، 13 سال پہلے ایک لاکھ روپے کیش چارجز وصول کیے۔ اُس نے گھر میں میں بیٹھ کر کچھ جاپ وغیرہ پڑھا پھر اچانک سے ہوا میں ہاتھ گھما کر ایک گڑیا برآمد کرلی اور گھر والوں کو دکھائی کہ یہ کسی نے آپ کے لڑکے پر جادو کیا تھا۔ مَیں نے توڑ کردیا ہے۔ اَب آپ کا لڑکا ٹھیک ہوجائے گا۔ گھر والے بہت خوش ہوئے اور نادیدہ دشمن کو کوسنے کاٹنے دیے، لیکن عامل کے چلے جانے کے کچھ دن بعد بھی میرے دوست کے بڑے بھائی کی وہی کیفیت رہی۔ پھر کسی نے مشورہ دیا کہ اس کو کسی سائیکاٹرسٹ کو دکھاو۔ اُنھوں نے ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر کو دکھایا، جس نے بتایا کہ اس کو اینگزائٹی ہے اور وہ شدید ڈیپریشن کا شکار ہے۔ کچھ عرصے علاج چلا اور میرے دوست کا بھائی ٹھیک ہوگیا۔ اَب بھی اُسی بنک میں جاب کررہا ہے اور ماشاء اللہ صحت مند ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جادو سیکھنا اور اس پر عمل کرنا اسلام کی نگاہ میں کوئی اشکال نہیں رکھتا؟اس سلسلے میں تمام فقہائے اسلام کہتے ہیں کہ جادو سیکھنا اور جادوگری کرنا حرام ہے۔ اس ضمن میں اسلام کے بزرگ رہ نماؤں سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں، جو احادیث کی کتب میں موجود ہیں۔
٭ حضرت علی فرماتے ہیں: ’’من تعلم شیئا من السحر قلیلا او کثیرا فقد کفر و کان اخر عہدہ بربہ۔‘‘ یعنی جو شخص کم یا زیادہ جادو سیکھے، وہ کافر ہے اور خدا سے اس کا رابطہ اسی وقت بالکل منقطع ہو جائے گا۔‘‘ (وسائل الشیعہ، باب 25، من ابوب ما یکتسب بہ)
لیکن اگر جادوگر کے جادو کو باطل کرنے کے لیے سیکھنا پڑے، تو اس میں کوئی اشکال نہیں، بل کہ بعض اوقات کچھ لوگوں پر اس کا سیکھنا واجب کفائی ہوجاتا ہے، تاکہ اگر کوئی جھوٹا مدعی اس کے ذریعے سے لوگوں کو دھوکا دے، یا گم راہ کرے، تو اس کے جادو کو باطل کیا جاسکے اور اس کا جھوٹ فاش کیاجاسکے۔
جادوگر کا جادو باطل کرنے اور اس کے جھوٹ کی قلعی کھولنے کے لیے جادو سیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی شاہد وہ حدیث ہے جو امام صادق سے منقول ہے: ’’ایک جادوگر جادو کے عمل کی اجرت اور مزدوری لیتا تھا۔ وہ امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ میرا پیشہ جادوگری ہے اور مَیں اس کے بدلے اجرت لیتا ہوں اور میری زندگی کے اخراجات اسی سے پورے ہوتے ہیں۔ اسی کی آمدنی سے مَیں نے حج کیا ہے، لیکن اب میں توبہ کرتاہوں، تو کیا میرے لیے راہِ نجات ہے؟ امام جعفر صادق نے جواب میں ارشاد فرمایا: جادو کی گرہیں کھول دو، لیکن گرہیں باندھو نہیں۔‘‘ (وسائل الشیعہ، باب 25، من ابوب ما یکتسب بہ، حدیث نمبر 1)
جاتے جاتے بس یہی دعا ہے کہ پروردگار ہمیں عقل و شعور عطا فرمائے اور حاسدین کے شر سے محفوظ فرمائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے