کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اے کاش! یہ حیوانِ ناطق واپس اُسی غار اور شکار کے دور میں چلا جائے، سب طبعی لحاظ سے مساوی نہ سہی پر سماجی و معاشی لحاظ سے یک ساں ہوکر ایک فطری زندگی گزار سکیں۔
پھر اگلی فکر گلے سے پکڑ لیتی ہے کہ انسان کے اندر ہی اسی فطرت نے کوئی ایسی خصلت رکھی ہے کہ یہ ہمہ وقت تغیر چاہتا ہے۔ اس نے فطرت کو زیر کرنے کی کوشش کی ہے اور اسی تگ و دو میں اس کے ہاں ثقافت نے جنم لیا ہے۔ اَب انسان بہ طور ایک طبعی و سماجی حیوان کے اُسی مقام پر پہنچا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ فطرت اور کائنات کو مسخ کرنے کی اس آرزو نے انسان کو فطرت سے لڑوایا بھی ہے، مقابلے کی اس کش مہ کش نے انسان کو انسان ہی سے مختلف نظریوں، نظاموں، مذاہب، زبانوں، رنگوں، جنسوں او نسلوں کی بنیادپر لڑوایا بھی ہے۔ اسی مقابلے نے انسانوں کے بیچ بہت بڑی تفاوت پیدا کردی ہے اور کئی نفسیاتی الجھنوں میں اس کو پھنسا دیا ہے۔ اسی مقابلے نے طبعی، نفسیاتی، نظریاتی اور فکری و معاشی لحاظ سے انسانوں میں بڑا فرق پیدا کردیا ہے۔ انسان ہی نے بہ ظاہر اس فرق کو کم کرنے یعنی مساوات کی خاطر کئی نظام گھڑ ے ہیں، کئی نظریات پیدا کیے ہیں، جو دعوا کرتے ہیں کہ ان کا مقصد بس انسان کی بھلائی ہی ہے۔ حقیقت میں یہ سارے نظام انسانوں نے اس تفریق کو صرف برقرار رکھنے کے لیے ہی نہیں، بل کہ اس کو بڑھانے کے لیے پیدا کیے ہیں۔ جمہوریت ہو، آمریت ہو، ملوکیت ہو کہ بادشاہت…… سب بس اسی مقابلے والے طاقت کے لیے ہیں۔ لبرل ازم ہو، روشن خیالی ہو کہ کوئی خدائی حاکمیت کا دعوا…… سب کچھ انسان نے طاقت کے حصول کے لیے گھڑا ہے۔
طاقت کی اس کش مہ کش میں کوئی خرد افروزی کا جھنڈا لیے اُٹھتا ہے، تو کوئی تقدیس کا لبادہ اُوڑھ کر کسی معبد میں بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طاقت کے حصول کی خاطر کوئی لبرل ازم اور آزاد خیالی کی دعوت دیتا ہے، تو کوئی کسی مقدس سانچے میں خود کو ڈھال کر لوگوں کی خاطر مدارت کرتا ہے۔ کسی نے اسی طاقت اور اسی عدم مساوات کے خلاف بہ ظاہر لڑائی کی، پر طاقت کے حصول کے بعد اسی مسند پر خود براجمان ہوا۔ آج کے افتادگانِ خاک کل کے اشراف بن جاتے ہیں۔ آج جو ہانکے جاتے ہیں، کل وہی ہانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ طاقت کی اس جنگ نے نہ ختم ہونے والے مرکز اور حاشیے پیدا کردیے ہیں۔ ایسے میں جدیدیت کے بعد میں ہانکے ہوئے ہماری طرح حاشیے (مضافات) پر پڑے لوگ کئی گھن چکروں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کش مہ کش سے جو مسائل جنم لیتے ہیں، اُن کا خلاصہ کچھ یوں ہوگا۔
٭ طبعی تبدیلیاں اور مسائل:۔ اس سے مراد ہماری جسمانی تبدیلیاں اور مسائل نہیں، بل کہ وہ تبدیلیاں اور مسائل ہیں جو ہمارے اردگرد اور رہن سہن سے متعلق ہیں اور جن کو ہماری طبعی دنیا جنم دیتی ہے۔ جب ہمارے لوگ ’’یاغستان‘‘ میں رہتے تھے، تو ان کے بیچ بڑی کش مہ کش خوراک کے حصول کے لیے ہوتی تھی۔ تب جامہ اور جوتا اتنا اہم نہیں ہوتا تھا کہ اُس وقت اون اور جاش (بکری کا اون) کے کچھ پہناوے استعمال میں لائے جاتے تھے اور گرمیوں میں عموماً ننگے پاؤں ہوتے تھے، جب کہ سردیوں کے لیے ’’تھواڑ‘‘ اور ’’پویوں‘‘ (پأخے ) ہوا کرتے تھے۔ گھاس پوس کے چپل (گأر سی پینئی) اکثر شادیوں کے لیے ہوا کرتے تھے۔ پیٹ پوجا سب سے بڑی ضرورت تھی۔ خوراک کم پڑجاتی، تو ایک دوسرے کے گاؤں پر دھار (دھاوا) بول دیتے تھے اور جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ انھی جنگوں کی وجہ سے ہر قبیلے اور گاؤں کا کوئی بڑا/ نواب وہی شخص ہوتا تھا جس کے پاس زمین اور مال مویشی زیادہ ہوتے تھے، یعنی خوراک کے ذرائع۔
دوسری صورت میں وہی مرد بڑا بن جاتا جس کے پاس ’’ڈاک گھن‘‘ یعنی جنگ جو زیادہ ہوتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُس قحطی زمانے میں بھی ایک سے زیادہ شادیاں کرنے کا رواج عام تھا۔ مقصد زیادہ مرد پیدا کرنا ہوتا تھا۔
پھر آہستہ آہستہ جدیدت آئی۔ پہلے یہ مذہب کی شکل میں ایک غیر ثقافت کو لے کر آئی۔ اس نے حالات بدلنے شروع کیے۔ نئے سماجی تعلقات مرتب ہونے لگے۔ نئی صف بندیاں ہونے لگیں، تاہم مذہب کے لبادھے میں اس نئی ثقافت نے زیادہ تر ان لوگوں کی سماجی روایات اور رسوم کو اس آبائی ثقافت کے اندر پیوست کردیا، جو ان بالادست لوگوں کی اپنی روایات اور رسوم میں موجود تھیں۔ چوں کہ ان بالادست لوگوں کو بھی یہ مذہب تیسرے یا چوتھے وسیلے سے آیا تھا۔ لہٰذا انھوں نے اس کو اپنی ثقافت میں رنگ کر ان حاشیوں پر لاگو کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی پاکستان کے مختلف علاقوں میں مذہب کی تفہیم، اس سے لگاو کی شدت اور عمل اب بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ اگرچہ ایک بڑی ریاستی بیانیے کے تحت اس کو یک ساں کرنے کی کوششیں بھی اپنے طور پر پوری طرح جاری ہیں۔
کوئی بھی مذہب، سماج کو منظم اور یک ساں کرتا ہے اور الہامی مذاہب کتاب اور اس کی خواندگی کی وجہ سے زیادہ جدید اور منظم طریقے سے سماج کو متاثر کرتے ہیں۔ مذہب اور اسطور ہی نے انسانی سماج کو منظم کرکے پہلے سلطنتیں قائم کی ہیں اور بعد میں ریاستیں، اگرچہ جدید قومی ریاستوں کی بنیاد میں شناخت اور قومیت نے بھی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ یہ دوسری تبدیلی اُس وقت سے ممکن ہوئی، جب دنیا خرد افروزی کی بہ دولت جدیدیت میں داخل ہوئی تھی اور پہلے سے مذاہب کی بنیاد پر قائم سلطتنوں سے تنگ آچکی تھی۔ اسی لیے انسان نے نئے بت بنائے جو قومیت او ر شناخت پر ایستادہ تھے۔
ہمارے ہاں جب اس مذہبی تبدیلی کے بعد اسی مذہب کی بنیاد پر قائم شدہ ریاست آئی، تو نئے مسائل نے جنم لیا۔ ریاستِ سوات کی بنیاد ایک مذہبی گھرانے سوات کے آخوند، میاں گل عبدلغفور المعروف سیدو بابا اور اُن کے جانشینوں نے ہی رکھی تھی۔ تاہم سیاست اور سماج کو اسی پرانے یاغستانی دور کے رواج اور روایات سے جوڑا گیا اور اسی کے تحت نئے سماجی و سیاسی تعلقات قائم کیے گئے۔ جہاں پہلے سے کوئی مکھیا یا جیشٹر موجود تھا، اُسی کو آگے بڑھایا۔ اسی نسبی و جغرافیائی، سماجی و سیاسی تنظیم کو مزید مستحکم کیا گیا۔ جہاں ضرورت پڑی، تو انھی قبائلی بنیادوں پر نئے بڑے بھی مقرر کیے گئے۔ ان کو نام وہی دیے، جو اس ریاست نے وسطی ایشیائی و مغلی اثرات سے لیے تھے۔ ریاست کے زمانے میں ہمارے ہاں بڑے مسائل جنگل، چراگاہ، وادی، گاؤں اور غیرت کے نام پر تنازعات اور دشمنیاں ہی رہے۔ سوات کا رواج نامہ اٹھا کر دیکھیں، تو اس علاقے سے متعلق سارے احکامات ان موضوعات سے متعلق ملیں گے۔ جو تعلیمی ادارے اُس وقت کے والی نے یہاں قائم کیے ہیں، وہ اس نے اپنے طور پر کیے ہیں۔
ریاستِ سوات پھر 1969ء میں پاکستان میں ضم ہوا، تو توروال سوات کے لوگوں نے بھی اسی ریاست کے ساتھ 55 سال کا سفر طے کیا، لیکن غور کیا جائے، تو یہاں کے مسائل وہی پرانے ہیں، وہی تنازعات ہیں اور وہی 59ء اور 64ء کی تقسیم کے مسائل ہیں۔ وہی لت بازی ہے اور وہی قبائلی ذہنیت۔
یہاں کے طبعی مسائل اب بھی وہی ہیں۔ یہاں بڑے مسائل اب بھی وہی پُل، سڑک، راستہ اور پانی کے پائپ ہیں۔ اسی پر سیاست کی جاتی ہے اور وہی آگے بڑھتی ہے۔ اُوپر سے قدرتی آفات سیلاب کی صورت میں آتے ہیں اور یہ علاقے ہر مرتبہ بیس سال واپس دھکیلتے ہیں۔ لہذا جہاں کوئی ایم پی اے یا ایم این اے نظر ائے گا اس سے پل، سڑک، راستے اور پائپ کی بات ہی ہوتی ہے۔
یہاں ریاست، یاغستان اور اس سے بھی پہلے فکری لحاظ سے سماج اتنا زیادہ پیچیدہ نہیں تھا۔ وہی چرواہے کی زندگی، وہی بان، کھان اور کُل و گل و رخسار اور دکھ درد کی شاعری، وہی شکاری کہانیاں اور وہی باپ دادا کی مبالغہ آمیز زبانی آپ بیتیاں۔ اپنی تاریخ اور ماضی تو 11ویں، 16ویں اور 18ویں صدی میں ختم ہوچکے تھے۔ لہٰذا جو بچا تھا، وہی اپنے آبائی اساطیر کے ساتھ وسطی ایشیائی و خراسانی کہانیوں کو جوڑ کر نئی کہانیاں بنُی گئیں۔ جو بالادستوں سے سنا تھا، اُسی کو نسلوں کو دہراتے رہے۔ سابقہ معبد، مساجد بن گئے، تاہم مذہبی تفہیم اور اس سے لگاو اَب بھی مختلف تھا۔ مساجد میں کہانیاں سنانا عام تھا۔ عید کے خطبے بھی پشتو زبان میں منظوم انداز میں ہوتے تھے۔ مساجد اسی پرانے نسبی و قبائلی یا لتوں کی نسبت سے بنائی جاتی تھیں اور مذہبی مسلک یا فرقے کی بہ جائے یہ قبائلی صف بندیاں نمایاں تھیں۔
سوات جب پاکستان میں ضم ہوا، تو یہ بڑی ریاست یہاں بھی اسی مذہبی تفہیم کو فروغ دینے لگی، جو اس نے ملک کے دیگر حصوں میں دی تھی۔ یوں مذہب کی جدید تفہیم علاقے میں جاری ہونے لگی۔ 1969ء میں ریاستِ سوات، پاکستان میں ضم ہوجاتی ہے اور ٹھیک دس سال بعد 1979ء کو پڑوسی ملک دنیا کے دو بڑے سیاسی اور معاشی نظریوں (اشتراکیت اور سرمایہ داری ) کے بیچ جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔ دونوں کا منشا اور مقصد دنیا پر اپنی مرضی اور اپنا نظام لاگو کرنا تھا۔ سرمایہ دار نے خود کو اہلِ کتاب ثابت کیا اور مخالف کو ملحد۔ اسی بیانیے کے تحت مملکتِ پاکستان کو زبردستی اہلِ کتاب کے ساتھ کروایا گیا اور اسی کے اندراس جنگ کو مذہبی جامہ پہنا کر مذہب کی نئی تفہیم شد و مد سے پھیلادی گئی۔ اس کی سہولت کاری فوجی آمروں کے ذریعے کروائی گئی جنھوں نے عوام میں اس کی پذیرائی کو پختہ کرنے کے لیے یہاں اور باقی ملک میں موجود مذہبی فرقوں اور مذہبی سیاسی گروہوں کو لگایا۔
٭ فکری تبدیلی اور فکری مسائل:۔ یہاں مساجد مذہبی فرقوں کی بنیاد پر تقسیم ہونے لگیں۔ نئی اور پرانی تفہیم میں سخت کشیدگی رہی اور تکراریں ہونے لگیں۔ شلواروں کو ٹخنوں سے اوپر نیچے کرنے پر مار کٹائی ہونے لگی۔ میت کو دفناتے وقت بھی تکرار اور ہاتھاپائی عام ہونے لگی۔ دور دور وادیوں میں مذہبی مناظرے ہونے لگے۔ علاقے میں بڑے بڑے فرقہ باز علما کو بھیجا جانے لگا، جنھوں نے مختلف مساجد کے منبروں کو خوب استعمال کیا۔ پیچھے ریاست تھی، مگر مذہب کی محبت میں اُس جانب کس کی نظر جاتی……!
اسی تذویراتی (Strategic) ناقص حکمت عملی کو مذہب سے ملانے کا نتیجہ سنہ 2006ء تا 2010ء سوات پر مذہبی جنونیوں کا قبضہ ثابت ہوا، جس کو لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اب ریاست کا کیا دھرتا سمجھتی ہے۔ اُس وقت فکری لحاظ سے لوگوں کی اکثریت اُن جنونیوں کے ساتھ تھی۔ اُن کی نہ صرف مقامی طور پر سہولت کاری کی گئی، بل کہ اُن کے ساتھ مالی تعاون بھی چندوں اور عطیات کی صورت میں فراخ دلی سے کیا گیا۔ یہ تو اہلِ سوات کو 2021ء میں جاکر معلوم ہوا کہ یہ سب ایک کھیل تھا، جو ختم نہیں ہوا، بل کہ جاری ہے۔ لہٰذا مزاحمت کی گئی، مگر 2009ء میں کوئی ایسی بات کرتا، تو اُس پر ملحد اور مرتد کا الزام لگا کر چپ کرایا جاتا، یا ٹھکانے لگا دیا جاتا!
قاری سوچتے ہوں گے کہ یہاں فکری تبدیلی اور اس سے جڑے مسائل کا احاطہ صرف مذہب اور اس کی تفہیم تک کیوں محدود کیا گیا؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ تاریخ ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ مذہب نے ہمیشہ انسانی سوچ پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں اور اس کا رشتہ بھی طاقت، غلبے اور غلبے سے نجات کے ساتھ کافی گہرا رہا ہے۔ جہاں مذہب نے انسانوں کو آزاد کرایا ہے، وہاں اس کو سیاسی و سماجی طاقت کے لیے استعمال کرکے انسانوں کو زیر بھی کیا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ہمارے جیسے پس ماندہ علاقوں میں مذہب ہی سب سے بڑا عوامی اور روایتی بیانیہ ہوتا ہے۔ ایسے علاقوں میں دوسری کوئی فکر مشکل سے پنپ سکتی ہے۔ ان علاقوں میں بھی مقامی ثقافت یا کسی بالا دست کی ثقافت کو مذہب کا روپ دے کر سماج پر لاگو کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے پورے سماجی اور فکری ڈھانچے میں مذہب کا دریچہ سب سے زیادہ نمایا ں اور کشادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ کئی لحاظ سے اُن مقامی روایات اور اقدار کا مذہب سے دور کا رشتہ بھی نہیں ہوتا۔
٭ ثقافتی تبدیلی اور مسائل:۔ یہ سیکشن کافی حد تک مذکورہ بالا پرائیوں سے جڑا ہوا ہے، تاہم اس کا الگ عنون دے کر اس پر ذرا زیادہ تفصیل مناسب ہوگی۔ ثقافت بہت جامع اور مشکل لفظ ہے۔ کئی ماہرین نے ثقافت یعنی کلچر کی 164 تعریفیں کی ہیں۔ اس سے اس کی وسعت اور گہرائی نمایاں ہوجاتی ہے۔ جو چیز سب تعریفوں میں مشترک ہے، وہ انسانی سماج اور فکر سے متعلق ہے۔ انسان نے اپنی عقلی استطاعت کے مطابق فطرت کے مظاہر کو دیکھا، ان کی تفہیم کی، ان سے نبرد آزما ہوا اور ان سے تعلق جوڑا۔ اسی سے ثقافت نے جنم لیا۔
ایک طرف ثقافت کے مادی مظاہر ہیں، جن کا تعلق مادی اشیا سے ہے۔ دوسری طرف وہ مخفی چیزیں ہیں، جو ہمیں کم نظر آتی ہیں۔ مادی مظاہر میں تبدیلیاں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں، تاہم غیر مخفی پہلوؤں کو کم ہی درخورِ اعتنا سمجھا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ انسان نے فطرت سے تعلق اور سماج بننے کے ساتھ ساتھ اپنے لیے مجموعی طور پر کسی گروہی سطح پر جو روایات، اقدار، اصول، آداب، ضابطے، قوانین اور ابلاغ کے ذرائع ترتیب دیے، انھی کو ثقافت کہا جاتا ہے۔ سماج اور ثقافت لازم ملزوم ہوتے ہیں۔ جوں ہی انسانوں نے سماج بنایا، ثقافت نے خود جنم لیا۔ جوں جوں سماج پیچیدہ ہوتا گیا، اُسی طرح ثقافت بھی پیچیدہ ہوتی گئی۔ البتہ اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سماج، ثقافت کو جنم دیتا ہے، یا ثقافت، سماج کو؟ بادی النظر میں سماج ہی سے ثقافت پھوٹتی ہے، تاہم بعد میں ثقافت، سماج کو کسی بھی ڈگر پہ ڈال سکتی ہے۔ مطلب ثقافت، سماج سے جنم لیتی ہے اور اس کو متاثر بھی کرتی ہے۔ اس کی وجہ وہ ثقافتی تبدیلی ہوتی ہے، جس کو فطری حالات پیدا کرتے ہیں۔ ساتھ ایک ثقافت دوسری سے اثر لیتی ہے اور اسی طرح یہ تبدیلی جاری و ساری رہتی ہے۔
توروالی کے علاقوں کی ثقافت ظاہراً بہت سادہ تھی۔ اس کو اگر محض طرزِ زندگی کہا جائے، مگر لوگ کیا سوچتے تھے، ان کا فکری قالب کیا تھا، اس کو طرزِ زندگی سے سمجھنے کی کوشش اکثر اوقات رائیگاں جاتی ہے۔ ان کو اساطیر اور لوک ادب سے سمجھا جاسکتا ہے۔ توروالیوں کی پرانی ثقافت جو یہاں سوات میں ’’درادا‘‘ اور بعد میں ’’گندھارا‘‘ تھی، ان سے کافی پہلے چھین لی گئی تھی۔ ان کو کچھ اب یاد ہے، وہ بعد کی اشیا ہیں۔ توروالیوں کی شعری صنف ’’و‘‘ کی ہیئت سے لگتا ہے کہ گویا یہ روایت گندھاری ادبی روایت سے ملاپ رکھتی ہے۔ اسی صنف کا جو ہیئت (Form) والا پہلو ہے، اس پر بدھی دھرماپدوں کے ساختی اثرات اب بھی موجود ہیں۔
ہماری ثقافتوں میں تبدیلی بدھ مت کے عروج، اس کے بعد 11ویں صدی میں محمودِ غزنوی کا سوات پر حملہ اور پھر 16ویں صدی میں سوات کے علاقوں میں افغانی اور ایرانی حملہ آوروں اور مذہبی پیشواؤں کے ذریعے مذہبِ اسلام کی آمد سے تیز ی آئی۔ اُس وقت جو ہندآریائی زبانیں تھیں اور مقامی آبائی مذہبی عقیدے تھے اور جن کی جڑیں برصغیری تھیں، وہ نئے اور قدرے زیادہ منظم اور پڑھی لکھی ثقافت اور مذہب کے سامنے بے بس ہوگئیں۔
سوات کی جو داردی آبادیاں تھیں، وہ دوسری طاقت ور آبادیوں میں ضم ہوگئیں۔ کچھ جان بچا کر ہزارہ اور ایبٹ آباد کی طرف بھاگ گئے اور کچھ جفا کُش پہاڑوں کی طرف چل نکلے۔ جہاں پہلے سے اُن کے ہم نسل اور ’’ہم ثقافت‘‘ لوگ موجود تھے۔ یوں ثقافتوں کی آمیزش ہونے لگی اور جو ان پرانی آبائی ثقافتوں میں بچا، وہ دراصل وہ بچی کچھی زبانیں تھیں، جو سوات کے پہاڑی علاقوں میں اب بھی توروالی اور گاؤری کی صورتوں میں بولی جاتی ہیں۔ ان زبانوں کے اپنے نام بھی مٹ چکے تھے اور عمومی طور پر ان کے بولنے والے بھی ان کو وہی نام دیتے، جو ان زبانوں اور لوگوں کو پہاڑوں میں بسنے کے سبب ان بڑی ثقافتوں نے دیگر زیادہ بڑی ثقافتوں کے زیرِ اثر دوسری زبانوں سے مستعار لے کر دیے تھے۔ جو کچھ ان برادریوں اور ان کی زبانوں کی شناخت کے بارے میں بچا تھا، وہ وہی الفاظ تھے، جو یہ برادریاں ایک دوسرے کے لیے قدیم زمانے سے استعمال کرتے تھے۔ مثلاً: توروالی لوگوں کو گاؤری بھائی، توروال کہتے اور یوں توروالی ان کو ’’گؤ‘‘ کہتے تھے۔ یہی کچھ بچا تھا۔ اسی کے ساتھ وہ قدیم روایات اور زبانی ادب تھا، جس میں تاریخ و ثقافت کی کچھ جھلکیاں موجود ہوتی تھیں…… مگر وقت کے ساتھ اور لوگوں کے جدید ہونے کی وجہ سے یہ روایات قصۂ پارینہ ہوگئی تھیں۔ یہ لوگ تاریخ میں اس قدر گم نام ہوئے تھے کہ سوات اور اس صوبے کے دیگر اصحاب اپنی ادبی تحقیق میں خوشحال خان خٹک کے شعر ’’پہ ملکونو تر شوال ا و در توروال‘‘ میں توروال ہزارہ ڈویژن کے علاقے تورغر ہی مراد لیتے رہے۔
ان کی ثقافتوں میں اب بھی داردی رنگ موجود ہیں، مگر اس کے لیے تحقیق کا بہت بڑا عدسہ درکار ہوتا ہے۔ بہ ظاہر اب یہ لوگ جس کو اپنی ثقافت سمجھتے ہیں، وہ زیادہ تر ان بالادستوں کی ثقافتیں ہیں۔ ان لوگوں کو کم ہی معلوم تھا، اب بھی کم ہی معلوم ہے کہ ان کی اصل پٹھان یا پشتون نہیں، تاہم جس طرح تاریخ کے ستائے ہوئے اور زیر کیے ہوئے لوگ بالادستوں سے نسلی و ثقافتی تعلق جوڑنے سے اپنی گم گشتہ شناخت کی چوٹ کو مندمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُسی طرح یہاں کے لوگ بھی ایسا کرتے تھے، اور اب بھی بڑی حد تک کرتے ہیں۔ تاہم ان کے ساتھ ان بالادستوں نے ہمیشہ ثقافتی سرحدیں قائم رکھی ہوئی ہیں اور کبھی بھی ان کو اپنا مساوی نہیں مانا ہے۔ اس ثقافتی سرحد کی بڑی مثال کوہستانی/ کوہستانے جیسے اصطلاحات ہیں۔
ریاستِ سوات کی سرکاری زبان پشتو تھی اور ان داردی لوگوں کو پشتو اور فارسی میں مسلمان کیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے پشتو یہاں ایک لحاظ سے مذہبی، تجارتی، سرکاری اور درس و تدریس کی زبان تھی۔ جب ریاستِ سوات پاکستان میں ضم ہوجاتی ہے، تو یہاں پر قومی زبان زیادہ شدت سے در آتی ہے۔ ابلاغ کے سارے ذرائع اُردو میں ہیں، تعلیم بھی زیادہ تر اُردو میں دی جاتی ہے، اس کے ساتھ یہاں سیٹلائٹ ٹیلی وِژن آگئے، تو اُردو نے پشتو کو ان علاقوں سے بہ حیثیت دوسری زبان (Second Language) ہٹا دیا۔ یہاں کی نئی نسلیں اُردو میں زیادہ آسانی محسوس کرنے لگیں…… یعنی ایک طاقت ور زبان کا اَثر کم ہوا، مگر اس کی وجہ سے مقامی زبانوں پر کوئی مثبت اَثر نہیں پڑا کہ اس زبان کی جگہ اس سے بھی زیادہ طاقت ور زبان نے لی۔ مطلب ثقافتی تسلط ہر صورت جاری رہا۔ مقامی طور پر اُردو کو پھیلانے میں مذہبی جماعتوں اور تبلیغی جماعت نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ تبلیغی نصاب جو فضائلِ اعمال کی صورت میں پشتو میں ہوا کرتا تھا، وہ اُردو میں عام ہونے لگا۔ مقامی طور پر اُردو میں مذہبی رومانوی ناول (نسیم حجازی) وغیرہ کافی عام ہوئے۔
یہ اُس وقت کی تبدیلیاں تھیں، جب ان علاقوں میں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور نیوز ٹی وی چینل عام نہیں تھے۔ جب ابلاغ کے یہ ذرائع آگئے، تو یہاں اُردو نے نہ صرف پشتو کو بہ طور دوسری زبان ہٹا دیا، بل کہ مقامی آبائی زبانوں کو بھی شدید خطروں سے دوچار کردیا۔ اب نوجوانوں میں، بل کہ بڑوں میں بھی عام اصطلاحات جیسے ہفتے کے دنوں کے یا مہینوں کے نام اُردو ہی کے استعمال ہونے لگے ہیں۔ اُردو، فارسی، عربی اور پشتو نے مقامی زبانوں کی اصطلاحات کو توڑ کے رکھ دیا ہے اور ان زبانوں کے اصل الفاظ اب متروک ہونے لگے ہیں۔ بچا کچھا کچھ زبانی ادب اور کہانیاں ہیں، جن کی بقا اور فروغ کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم اس بڑے سیلاب کے آگے یہ بند کافی کم زور پڑ رہے ہیں۔ چوں کہ اپنی ہند آریائی اور غیر سامی ہونے کی وجہ سے ان مقامی زبانوں کے ساتھ اب بھی ایک ناپاکی جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے ان میں مذہبی اصطلاحات کو نہیں ڈھالا جاسکتا۔ مذہب چوں کہ ان علاقوں میں سب بڑا سماجی ڈسکورس (Discourse) یعنی عمومی نظریہ و بیانیہ ہے۔ لہٰذا ان زبانوں میں عربی و فارسی کی اصطلاحات در آتی ہیں۔ مذہبی کتب کو ان زبانوں میں ترجمہ نہیں کیا جاسکتا اور جہاں ایسی کوئی کوشش ادارہ برائے تعلیم و ترقی (ا ب ت) نے یا کسی اور ادارے نے کی ہے، وہ زیادہ تر ان زبانوں کے نحوی (Syntactic) قالب میں عربی، فارسی اور اُردو کے الفاظ سمونا ہے۔ یہ صورتِ حال جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی زبان میں بھی عام ہے۔ مثلاً: ایک شخص نے توروالی میں اپنے کسی رشتے دار سے مریض کی حالت پوچھی، تو اُس تعلیم یافتہ نوجوان کا جواب توروالی میں یوں تھا: ’’سے مریض مھیرے دھیرے دھیرے صحت یابی سی جانب گامزن تُھو۔‘‘ اس جواب میں سے، مھیرے، سی، تُھو کے علاوہ سارے الفاظ اُردو کے ہیں۔ اسی طرح ایک دوسرے تعلیم یافتہ نوجوان سے کسی پبلک سکول کے بارے میں پوچھا گیا، تو اُس کا جواب تھا: ’’فالکن سکول ما بعد پبلک کے مُھن پرمارمنس ایکسیٹیبل نی چھی۔‘‘ اس جملے میں ما، مُھن، نی چھی کے علاوہ سارے الفاظ انگلش کے ہیں۔ دور کیوں جائیں،آپ سوشل میڈیا کی کسی ویڈیو میں راقم سمیت علاقے سے کسی بھی فرد کا انٹرویو سن لیں۔ اندازہ ہوگا کہ کس طرح لوگ صرف امدادی افعال اور الفاظ کو جوڑنے والے قواعد ی لفظوں کے علاوہ دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ خیر، اس کو کئی زبان دان درست مان لیتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ رجحان بھی ایک زبان سے دوسری میں مکمل منتقلی کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ جہاں اپنی زبان کالفظ موجود ہو، تو اس کو استعمال کیا جانا چاہیے، مگر جدید تعلیم اور ذرائع ابلاغ پر دیگر زبانوں کے غلبے سے ایسا لاشعوری طور پر بھی ہونے لگتا ہے۔
دوسری طرف رسوم میں طاقت ور لوگوں کی رسوم در آتی ہیں۔ مقامی رسوم کو کم تر اور نئے ذوق کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ماناجاتا۔ دوسری طرف مقامی رسوم پر مذہبی دباو بھی زیادہ پڑتا ہے کہ مقامی فن کاروں، گلوکاروں، شاعروں اور موسیقاروں کو آسانی سے دباو میں لایا جاسکتا ہے۔ ان کو دبایا جاتا ہے، جب کہ طاقت ور وں کی ثقافتوں کو اس طرح آسانی سے قابو نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا مقامی فنون کو دبانے سے جو خلا پیدا ہوجاتا ہے اس کو یہی طاقتور ثقافتیں پُر کرتی ہیں۔
٭ ماحولیاتی و جغرافیائی تبدیلیاں اور مسائل:۔ انسانی آبادی میں اضافہ جہاں سماج اور ثقافت کو تبدیل کردیتا ہے، وہاں پہ اس کی بڑھتی ضروریات جغرافیہ، ایکولوجی اور ماحولیات کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ یہ رشتہ دو رویہ ہے۔ جغرافیہ، ایکولوجی اور ماحولیات میں تبدیلی انسانی آبادی اور ثقافت کو بھی تبدیل کردیتی ہیں۔ آمد و رفت کے نئے ذرائع، پیداوار کے نئے طریقے اور ان کی وجہ سے جنم لینے والی نئی ضروریات انسانی و طبعی جغرافیہ اور ماحول کو متاثر کرتی ہیں۔ سنہ 1880ء میں کرنل بڈلف کے مطابق یہاں توروال کے علاقے میں سب سے بڑا گاؤں بشیگرام وادی میں چیل گاؤں تھا۔ رامیٹ گاؤں دوسرے نمبر پر تھا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے، جب توروال علاقے میں سڑک نہیں آئی تھی۔ جوں ہی ریاست کے زمانے میں دریائے سوات کے کنارے سڑک تعمیر کی گئی، تو آبادکاری میں بھی تبدیلی آئی۔ اُس وقت برانیال (اَب بحرین) آبادی کے لحاظ سے چیل گاؤں سے چھوٹا تھا، مگر اَب یہ ایک چھوٹا شہر بن چکا ہے۔
قدیم زمانے میں یہاں کا طرزِ تعمیر زیادہ تر مقامی جغرافیہ اور موسمی حالات کے مطابق ہوتا تھا۔ گھر اور گاؤں ڈھلوانوں پر عموماً ناقابلِ کاشت زمینوں پر تعمیر کیے جاتے تھے۔ زمین کاشت کاری کے لیے چھوڑی جاتی تھی۔ گھر اور گاؤں دریا، نالوں اور چٹانوں کے گرنے والی جگہوں سے دور بنائے جاتے تھے۔ مکان مٹی، پتھر اور لکڑی کے ہوتے تھے۔ گھر کے اندر کھڑکیاں، دیراأن، تنگ ہوتی تھیں۔ گھر عموماً ایک یا دو بڑے کمروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اصطبل بھی گھر سے منسلک ہوتا تھا۔ اس ایک یا دو کمروں کے سامنے ’’مونڈو‘‘ یا برآمدہ ہوتا تھا۔ گھر کے ساتھ خالی جگہ دیرا ہوتا تھا۔ گھر کی چھت مٹی کی ہوتی تھی۔ گھر سردی اور گرمی کے دونوں موسموں کے لیے مناسب ہوتا تھا۔ اصطبل کے گھر کے ساتھ ہونے کی وجہ سے گھر سردیوں میں گرم رہتا تھا۔ سردی اور گرمی کے موسم کے لیے مختلف کمرے ہوتے تھے، جن کو ’’کُھونِم‘‘ اور ’’مُوشِم شیِر‘‘ یعنی پچھلا اور اگلا گھر کہا جاتا تھا۔ جن گھروں میں ایسا نہیں ہوتا تھا، وہاں برآمدے کو ہی گرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
وقت اور موسم کے لیے سورج، چاند اور ستاروں کی حرکت و گردش کا مشاہدہ کیا جاتا تھا۔ مقامی طور پر موسمی کلینڈر موجود تھا، جس کو ’’بہادر سی حساب‘‘ یعنی ’’بہادر کا کلینڈر‘‘ کہا جاتا تھا۔ بہادر آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے توروالی سوات کے گورنال نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ اُنھوں نے اسی بالائی گاؤں سے سامنے مغرب کی طرف اُفقی پہاڑوں پر نشانات بنائے تھے، جن کی نسبت سے وہ ستاروں، سورج اور چاند کی حرکت کو ناپ کر موسموں کا حال بتاتے تھے۔
بہادر کا کلینڈر عمومی جیتری سے تھوڑا سا مختلف تھا اور عموماً 10، 12 دن آگے ہوتا تھا۔ بہادر کے اُس حساب کتاب کے مطابق لوگ فصل بوتے اور کاٹتے تھے۔ اُنھوں نے اسی گاؤں میں آب پاشی کے پانی کی تقسیم کا نظام بھی وضع کیا تھا، جو اَب بھی اُسی طرح موجود ہے۔ بہادر کا کلینڈر اب بھی مقامی طور پر بڑے بزرگ استعمال کرتے ہیں۔ اُن کے کلینڈر میں ’’یگے‘‘ (برجِ میزان) یعنی "Libra”، ’’گُپ او سُول‘‘ یعنی "Dog Star (Sirius)” اور "North Star (Polaris)” ، چاند اور سورج کے اُن ستاروں کے ساتھ گردشی حرکت کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ بہادر کے اُس کلینڈر کے مطابق توروال علاقے میں 9 موسم ہوتے ہیں اور ہر ایک کا دورانیہ کوئی 40 یا 41 دن بنتا تھا۔ اسی حساب کے مطابق لوگ پہاڑی چراگاہوں میں مویشی لے جاکر بستے تھے اور اسی کے حساب سے پھر نیچے گاؤں اترتے تھے۔ اب بھی جو لوگ ان چراگاہوں میں جاتے ہیں، وہ اس حساب کے مطابق ہی اپنا سفر کرتے ہیں۔
گاؤں تک راستے نالوں اور دریاؤں سے جہاں تک ممکن تھا، دور ہوتے تھے۔ پرانے راستوں کے جو آثار بچے ہیں، وہ اب بھی دریاؤں سے دور ہی ہیں۔ ان میں مغربی توروال کی طرف ’’می سی پان‘‘ (درمیان والا راستہ) بہت استعمال ہوتا تھا۔ یہ نام اس کو بحرین کے قریب دیا گیا، جب کہ دیگر گاوؤں میں اس راستے کے اپنے نام ہیں۔ یہ راستے توروال علاقے میں دریائے سوات کے دونوں کناروں ایسے تھے اور توروالی ٹریکٹ کا اُلال درہ بھی ایسے ہی معروف راستوں میں ہوا کرتا تھا۔ دونوں اطراف یہ راستے مدین تا کالام تھے اور مختلف گاوؤں کو آپس میں ملاتے تھے۔ ان میں مشرقی راستے کے بارے میں مشہور ہے کہ پرانے زمانے میں کسی مقامی توروالی بادشاہ ’’سُولیمینک‘‘ نے ایسا ایک راستہ چٹانیں چیر کر بنایا تھا۔ توروالی شعر
تأ کھید سُولیمینک سی شانے ھئی کیِدی آرا
چپٹ پن دے یدے مھیئے چنجو نہ لشا
(ترجمہ) تم نے کب سُو لیمینک کی طرح چٹانیں چیر کر راستے بنائے ہیں۔ چلتی اور بنی بنائی راستوں پہ یوں چل گردن ہلا کر مت اتراؤ۔
اسی راستے سے متعلق ہے۔
اس وقت گاؤں گاؤں میں زمین کی سیرابی اور آب نوشی کے لیے پہاڑی نہریں (یاب) بنائی گئی ہیں۔ وہ اب بھی موجود ہیں اور زیادہ تر مستعمل بھی ہیں۔ ان کو کئی مقامات پر سیمنٹ بھی کیا گیا ہے۔ گورنال نامی گاؤں کو جو پہاڑی نہر بڈال نامی چراگاہ سے آئی ہے، وہ اب بھی اُسی طرح استعمال میں ہے۔ اُسی طرح جنوبی توروال علاقے میں بھیم گڑھی نامی گاؤں سے پہاڑی نہر جے یاب کے نام سے مشہور ہے اور پورے علاقے کو اب بھی سیراب کرتی ہے۔ دریائے درال سے بھی بحرین سے جڑے تھیبلہ گاؤں کو یہ نہریں اب بھی موسم گرما میں تین مہینوں کے لیے بہتی ہیں، جب کہ درال پر درال ہائیڈرو پاور منصوبے کی وجہ سے یہ دونوں نہریں باقی مہینوں میں خشک پڑتی ہیں۔
چند بڑی نہروں کے علاوہ دیگر گاوؤں جیسے درولئی اور آئین میں ایسی نہریں چشموں سے نکلتی ہیں اور جن کی وجہ سے پورے گاؤں کی زمینوں کو سیراب کیا جاتا ہے۔
ان نہروں کے ذریعے پانی کی تقسیم کی بنیاد کھیتوں کے سائز، مختلف گھرانوں اور ذیلی قبیلوں پر ہوتی ہے۔ مثلاً: درولئی گاؤں میں جنوب مغرب کی جانب کنڈر نامی علاقے میں چشمے سے جو دو نہریں کنڈر نالے کے بائیں اور دائیں طرف نکلتی ہیں، ان میں جب پانی کم ہونے لگتا ہے، تو مقامی لوگ یرک (جرگہ) کرکے دونوں اطراف کے کھیتوں کے سائز کے مطابق چھے اور سات دنوں کے حساب سے یہ تقسیم کردیتے ہیں۔ جس طرف بھی کسی کی فصل کو اگر اچانک پانی کی ضرورت ہو، تو وہ دوسری طرف سے، جہاں پانی سیراب کرنے کی باری ہوتی ہے، ایک رات یا ایک دن کے حساب سے پانی قرض لیتا ہے۔ لوگ ایسی ضروریات کو دیکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔
اس علاقے میں دریائے سوات (گھین نھید) کے دونوں کناروں پہ آباد گاوؤں کو ملانے کے لیے پل ہوتے تھے۔ پہلے زمانے میں ایک مقامی جھاڑی، یان، کے پل ہوتے تھے۔ دریاؤں کو پار کرنے لیے یہ رسیاں ہوتی تھیں۔ دو مشہور پل، جن کو ’’یان سی‘‘ سے یعنی چیان کے پل کہا جاتا تھا، کے نام اب بھی لوگوں کو یاد ہیں۔ ایک بحرین میں دریائے درال کے آر پار آبادیوں کو ملاتا تھا اور دوسرا آئین گاؤں کا تھا۔ ان کے بعد یہ پل مقامی روایتی مگر بڑے سائنسی طور پر لکڑی کے بنائے جانے لگے۔
بزرگوں کے مطابق علاقے میں 2010ء سے پہلے بڑا سیلاب کوئی 1929ء کے آس پاس آیا تھا، جو بحرین بازار میں چٹان کو لگے درولئی پل کے اوپر سے گزرگیا تھا۔ اس وقت کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا ہوگا کہ آبادیاں کم تھیں اور دریا کنارے کوئی بڑی شاہ راہ تھی اور نہ آبادیاں۔
توروالی پٹی سیاحت کے لیے ریاست کے دور میں کھل گئی تھی، تاہم بڑی تیزی یہاں 1970ء کے بعد آئی۔ ریاست کے دور میں یہاں پنجاب سے جو سیاح آتے تھے، اُن کو پاکستانی کہا جاتا، کہ ریاست کے لوگ خود کو الگ تصور کرتے تھے۔ 70ء اور 80ء کی دہائی میں مدین اور بحرین یوروپی اور امریکی ’’ہیپیوں‘‘ (Hippies) کا بھی بڑا مسکن ہوا کرتا تھا۔ یہ سلسلہ 2001ء تک جاری رہا۔
جوں ہی ریاستِ سوات نے توروال کے علاقے میں 1950ء کی دہائی میں سڑک تعمیر کرنا شروع کی، تو روایتی پرانے راستوں کو زیادہ مقامات پر چھوڑ کر اس سڑک کو دریا کے کنارے تعمیر کرایا گیا اور اس کو ’’بیگار‘‘ یعنی لوگوں سے مفت کام کرواکر تعمیر کیا گیا۔ ہر گاؤں کی اپنی باری ہوتی تھی اور یوں یہ سڑک مدین تا بحرین اور پھر کالام تک بن گئی۔
علاقے میں پہلے غیر ملکی شخص معروف ماہرِ آثارِ قدیمہ سر اریل سٹئین (Aurel Stein) توروالی پٹی کے ریاستِ سوات میں ضم ہونے کے بعد 1925ء کو آئے تھے، جنھوں نے یہاں کافی مواد جمع کرکے لسانی سروے آف انڈیا کے مصنف سر جارج گرئیرسن کو دیا، جنھوں نے پھر توروالی زبان پر ایک کتاب لکھی۔ اُس سے پہلے گلگت ایجنسی کے پہلے پولی ٹیکل ایجنٹ کرنل بڈلف نے توروالی پر ایک باب اپنی کتاب "Tribes of Hindu Kush” میں 1880ء کو شامل کیا تھا۔
اسی سڑک کے ساتھ یہ علاقہ دوسرے علاقوں کے لیے کھل گیا۔ کالام ابھی 1969ء تک ایک ایجنسی تصور ہوتا تھا۔ کالام کے بارے میں یہ تصور 1990ء کی دہائی تک قائم رہا۔ اس سڑک نے علاقے میں آبادی کا طرز اور خط و خال بدل ڈالے۔ آہستہ آہستہ سڑک کنارے لوگوں نے بازار اور ہوٹل بنانا شروع کیے۔ بحرین میں پرانا بازار، جس کو اب ڈاک بازار یا پشتی بازار کہتے ہیں، بہ تدریج متروک ہوا اور یہاں نیچے سڑک کنارے بڑا بازار بننے لگا۔ کرنل بڈلف (1880ء) کے مطابق اُلال (بشیگرام) وادی میں ’’چیل‘‘ پورے توروال علاقے میں بڑا گاؤں تھا۔ سڑک کی وجہ سے بحرین آہستہ آہستہ بڑھنے لگا اور یہاں دوسرے گاؤں سے بھی لوگ آکر آباد ہونے لگے۔ یہاں ایک قسم کی نئی شہر سازی (Urbanization) شروع ہوئی۔ اَب پورے توروال میں سب سے بڑا قصبہ بحرین ہے اور یہ ریاست کے قیام کے بعد پوری تحصیل کا ہیڈ کوارٹر بھی بن گیا ہے، جو ہنوز قائم ہے۔
بحرین جو کبھی سرسبز کھیتوں اور دریائے درال کی یخ بستہ سفید آبشاروں کی وجہ سے مشہور تھا، اب کنکریٹ ہوچکا ہے۔ شاداب کھیتوں میں لوگوں نے پکے مکان بنالیے ہیں اور پار درولئی والی پہاڑی سے نظارا کرنے سے لگتا ہے کہ پوار گاؤں اب ایک پکا قصبہ بن چکا ہے۔
علاقے میں مقامی آبادی میں اضافے، سیاحت کی آمد اور اسی مد میں نئی سرمایہ کاری کی وجہ سے یہاں کا طرزِ تعمیرتبدیل ہوا۔ جدید مگر نیم معلومات نے دیسی حکمت کی جگہ لی۔ گاؤں گاؤں کچی سڑکیں بن گئیں۔ گاؤں کے صاف ستھرے پہاڑی نالے گند سے بھرنے لگے۔ چشموں سے پانی کی تقسیم کا نظام پلاسٹک پائپوں کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوا کہ ہر گھر نے اپنے لیے چشمے سے الگ پائپ لگایا، جس کی وجہ سے پانی کم بھی پڑنے لگا۔
80ء اور 90 ء کی دہائیوں میں پوری تحصیلِ بحرین میں نئی فصلیں متعارف کرائی گئیں۔ لوگوں نے روایتی فصلوں کی جگہ ’’کیش کراپس‘‘ جیسے ٹماٹر، مٹر، گوبھی، فرنچ بینز اور دوسری سبزیاں اُگانا شروع کیں۔ ان نئی فصلوں کے لیے کیڑے مار دوائیوں کا استعمال عام ہونے لگا، جس کی وجہ سے شہد کی مکھیاں اور دوسرے حشرات الارض غائب ہوگئے۔ البتہ جنگل بڑھ گئے، پر جنگلوں اور پودوں کے لیے زمین تنگ ہونے لگی۔
مقامی لوگوں نے پہاڑی چراگاہوں پر مویشی لے کر جانا چھوڑ دیا اور یوں ان چراگاہوں کو مویشیوں کے چرنے کی غرض سے لیز پر دینے کا رجحان بڑھ گیا۔ ساتھ سیاحوں نے بڑی تعداد میں ان چراگاہوں پر جانا شروع کیا۔ علاقے میں جو پہاڑی جھیلیں تھیں، اُن کے اردگرد گند اور کوڑا کرکٹ بڑھنے لگا۔ علاقے میں سیاحوں کی آمد 2004ء تا 2020ء، طالبان کی شورش، 2010ء کے سیلاب کے بعد 2017ء کے آس پاس بحرین کالام سڑک کی بہ حالی کے بعد سیاحوں کی تعدا د میں بہت اضافہ ہوا۔ یہ اضافہ 2022ء تک جاری رہا۔ البتہ بیچ میں طالبان کی سوات میں دوبارہ آمد کی خبروں نے سیاحت کو بری طرح متاثر کیا۔ اسی طرح 2022ء کے سیلاب نے سیاحت سمیت یہاں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ توروال سوات کے علاقے میں بڑے سیلاب نہیں آتے تھے۔ کچھ نالے ضرور بسنت اور برسات میں چڑھتے تھے۔ بزرگوں کے مطابق یہاں 2010ء سے قبل بڑا سیلاب 1929ء میں آیا تھا۔ 2010ء کا سیلاب جب آیا، تو لوگوں کا خیال تھا کہ یہ وادی کی تاریخ میں سب سے شدید سیلاب ہے، مگر 2022ء کو اُس سے بھی بڑے سیلاب نے لوگوں کو مزید مشکلات کا شکار کردیا۔
ماحولیاتی تبدیلی کو یہاں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ پہلے بحرین میں 2، 3 فٹ برف پڑتی تھی، اب یہ کم ہوکر 5 تا 8 انچ تک آگئی ہے۔ موسموں میں عجیب تبدیلیاں آنے لگیں۔ بحرین اور کالام کے علاقے مون سونی نہیں، لیکن گذشتہ ایک دو دہائیوں سے مون سون کی بارشیں یہاں بھی ہونے لگی ہیں۔ جب یہ بارشیں پہاڑوں پر الپائن لائن سے اوپر پہاڑی چراگاہوں اور چٹیل چوٹیوں اور پتھریلی مٹی پر پڑتی ہیں، تو علاقے کے نالوں میں سیلاب آتا ہے اور جب یہاں کے سارے نالے ایک ساتھ چڑھیں، تو دریائے سوات میں گر کر پوری وادئی سوات کو زد میں لے لیتے ہیں، جس کی دو بڑی مثالیں 2010ء اور 2022ء کے سیلاب ہیں۔ ان سیلابوں کی وجہ سے علاقے سے مستقل اور عارضی نقلِ مکانی میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
جوں ہی یہ خوب صورت علاقہ سیاحت کے لیے کھل گیا، تو آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مقامی وسائل، پانی، جنگلات اور چراگاہوں پر دباو بڑھنے لگا۔ سیاحت کی ناقص انتظام کاری کی وجہ سے یہاں کی جھیلیں، چراگاہیں، ندیاں اور دریا گندے ہونے لگے۔ کالام، بحرین اور گرد و نواح میں باہر سے سرمایہ کار آنے لگے، جنھوں نے مقامی لوگوں سے زمینیں خرید کر بڑے بڑے ہوٹل بنائے۔
توروال اور کالام سوات کے علاقوں میں قدرتی وسائل میں سے بڑے پانی، جنگلات اور ان کی وجہ سے جنگلی اور آبی حیات ہیں۔ سیاحت میں بے ہنگم اضافے اور علاقے میں پن بجلی منصوبوں کے آنے سے یہاں کی پوری ایکولوجی، ماحولیات اور طرزِ زندگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ترقی کے نام سے یہ منصوبے مقامی آبادیوں کے لیے نہیں، بل کہ سیاحوں اور غیر مقامی سرمایہ کاروں کی سہولت کاری کے لیے بنائے جارہے ہیں۔
علاقے میں مقامی طور پر کوئی بااثر سیاسی و سماجی تحریک نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے سب وسائل کو غیرمقامیوں کے لیے استعمال میں لایا جارہا ہے، جس سے علاقے میں غربت، بے روزگاری، احساسِ محرومی اور نتیجتاً علاقے سے نقلِ مکانی میں اضافہ ہورہا ہے۔
یہ ثقافتی، فکری، ماحولیاتی اور طبعی تبدیلیاں ممکن ہے ناگزیر ہوں، تاہم ان کے اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے، لیکن وفاقی اور صوبائی دونوں مراکز کے ذریعے کوئی ایسی حکمت عملی نہیں بنائی جارہی کہ جس کی وجہ سے یہاں کے وسائل، ماحولیات اور ثقافت پر ان منفی اثرات کو کم کیا جاسکے۔ ملکی اور صوبائی مفاد کی خاطر یہاں ایسے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جن میں مقامی آبادی کی مشاورت اور فیصلہ سازی کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا جارہا۔ ان علاقوں کے مکینوں کو اب بھی ایسی اندرونی نوآبادیاتی حکمت عملیوں کے ذریعے ایک طرف مزید حاشیوں پہ دھکیلا جارہا ہے، وہاں پہ ان کی شناخت، زبان، ثقافت اور تاریخ کو بھی گم نامی کی اتاہ گہرائیوں میں ڈالا جارہا ہے۔
ان ثقافتی، فکری، طبعی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے یہاں کی مقامی آبادیوں، توروالی اور گاؤریوں، کو قانونی اور آئینی طور پر دیسی/ آبائی (Indigenous) قرار دے کر کچھ حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔l.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

One Response
آپ بہت زبردست کام کر رہے ہیں۔ اسے جاری رکھیں۔ جو دوسروں کو نظر نہیں آتا وہ آپ ان کو دکھا رہے ہیں، سمجھا رہے ہیں اور بچا رہے ہیں۔ ایک اور ایک دو نہیں گیارہ ہوتے ہیں۔ آواز اٹھاتے رہیں قافلہ بھی بن جائے گا۔