ترقی، استحکام اور مضبوطی کی واحد راہ

Blogger Tariq Hussain Butt

پاکستان میں سعود ی عرب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان کو جب بھی کوئی مشکل وقت درپیش ہوتا ہے، سعودی عرب بڑھ کر اس مشکل وقت سے پاکستان کو نکالنے کے لیے میدان میں کود پڑتا ہے۔
مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کے قومی اتحاد کی تحریک کے دوران میں دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پرلانے کے لیے سعود ی سفیر نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔ مذاکرات تو کام یاب ہوگئے، لیکن جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کوشب خون مار کر حکومت پر قبضہ کرلیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو قید و بند سے گزارنے کے بعد انھیں 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دے کر اپنے راستے سے ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔
جنرل پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو میاں نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کرکے میاں صاحب کو قید کر دیا، تو سعودی عرب اُنھیں 10 سالہ معاہدے کے بعد سرور پیلس لے گیا اور یوں ملک ایک اورقتل سے بچ گیا۔ میاں صاحب 2017ء میں ایک دفعہ پھر اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکار ہوئے اور جیل میں اُن کے پلیٹ لٹس کم ہونے کے باعث اُن کی حالت غیر ہوئی، تو پھر سعودی عرب ہی نے کرشمہ دکھایا اور میاں صاحب کوٹ لکھپت جیل سے بہ حفاظت نکال کر لے گئے۔ اس دفعہ میاں صاحب کی منزل لندن کاایون فیلڈ بنا۔ چشمِ فلک نے اپنے تیور بدلے، تو کل کے قیدی حکم ران بن گئے، جب کہ کل کے حکم ران قیدی بنادیے گئے۔ میاں نواز شریف کی آزمایش تو ختم ہوگئی، وہ اپنی جَلا وطنی ختم کر کے وطن واپس بھی آگئے اور 8 فروری 2024ء کے دھاندلی شدہ انتخابات میں اقتدار اُن کی بہ جائے میاں شہباز شریف کو منتقل کر دیا گیا، جب کہ عمران خان کو اپنے انقلابی پروگرام کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے اور اُن کا مقدر اڈیالہ جیل کا وہی کمرا ٹھہرا جہاں کسی زمانے میں میاں صاحب کو قیدی بنا کرر کھا گیا تھا۔
عمران خان کی قید نے ملک کو عجیب مخمصے سے دوچار کر دیا ہے۔ ملک کی نوجوان نسل عمران خان کی رہائی کے لیے بے تاب ہے اور اپنی بغاوت سے ملکی نظام کو داؤ پر لگایا ہوا ہے۔ وہ حکومت کی بات سننے کے لیے تیار نہیں، وہ اپنے قائد کی اڈیالہ جیل سے رہائی کے متمنی ہیں، لیکن اشرافیہ اُن کی دہائی کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہی، جس سے پورا نظام زمیں بوس ہوچکا ہے۔
24 نومبر کو اسلام آباد کی جانب مارچ نے ملک کو یرغمال بنا نا چاہا، تو سیکورٹی فورسز نے پوری قوت سے عمران خان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ لاشیں اُٹھیں، خون بہا، اِملاک کو نقصان پہنچا اور سیکڑوں لوگوں کو جیلوں میں ٹھو نسنا پڑا، جس سے ملکی فضا سوگ میں ڈوب گئی۔ اس سارے پس منظر کی زہریلی ہواؤں میں عمران خان جیل کے قیدی بنے ہوئے ہیں اور ریاست ملکی انتشار کی وجہ سے اپنے معاملات خوش اُسلوبی سے ادا کرنے سے قاصر ہے۔
ایک طرف معاشی بدحالی ہے، تو دوسری طرف عدمِ استحکام اور امن و امان کی حالت انتہائی مخدوش ہے، جس سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ ملکی معاملات خوش اُسلوبی سے سر انجام نہیں ہوپا رہے اور ملکی خزانہ روز بہ روز کم ہو تا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی عوامی خواہشات کوقتل کر رہی ہے۔ قوم ذہنی طور پر تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک طرف ریاست ہے، جب کہ عوام کی اکثریت حکومتی اقدامات سے ناخوش ہے، وہ اپنے قائدعمران خان کی جیل سے رہائی چاہتے ہیں، لیکن ریاست عمران خان کی رہائی سے خوف زدہ ہے۔ عمران خان ایک سیماب صفت انسان ہیں، جو عوامی جذبات کو بھڑکانے میں اپناث انی نہیں رکھتے۔ وہ جیل سے رہائی کے بعد پھر سڑکوں پر ہوں گے، تو ریاست ان کے سامنے بے بس ہوجائے گی۔ حکومت اس خوف کے حصار میں قید ہے اور قیدی کو رہا کرنے سے ڈر رہی ہے۔ حالات کی سنگینی روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے اور حکومت پر عوام کا اعتماد کم زور ہوتا جا رہا ہے۔ انتشار اپنے پنجے گاڑ رہا ہے، لیکن حکم رانوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ وہ غدار اور ملک دشمنی کا راگ الاپ کر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش میں جتے ہوئے ہیں، لیکن ان کی بات بن نہیں رہی۔ صورتِ حال کو کنٹرول کرنے اور معاملات کی گھمبیر صورتِ حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے حکومت نے مذاکرات کی میز سجانے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کی راہ کو ہم وار کی جاسکے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عوامی جذبات جس طرح بپھرے ہوئے ہیں، اُس پر قابو پانا حکومت کے بس میں نہیں۔ پارا چنار (خیبر پختونخوا) میں جس طرح کی بدامنی کی فضا پیدا ہوچکی ہے، وہ ریاستی امور کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہے۔ لاشوں پر لاشیں گر رہی ہیں، لیکن امن ہے کہ قائم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
بلوچستان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہر روز سیکورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں، جس سے سیکورٹی فورسز کے افراد جامِ شہادت نوش کر رہے ہیں۔ یہ واقعات تواتر سے ہو رہے ہیں، جب کہ ریاست اس مشکل سے نکلنے میں کام یاب نہیں ہو رہی۔ بی ایل اے حکومت کو کھلا چیلنج دے رہی ہے، لیکن حکومت بے بس بنی ہوئی ہے۔ حالاں کہ اس کے لیے اسے بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
ایک طرف عوامی بے چینی اور ملکی حالات حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں، تو دوسری طرف عالمی رائے عامہ حکومت پر اپنا دباو ڈال رہی ہے۔ امریکہ بہادر کی جانب سے مخصوص سیاسی جماعت کو نشانہ بنانے اور اس کے قائدین کو جیلوں میں بند کرنے پر شدید تحفظات ہیں۔ وہ ایسے تمام اقدامات کو واپس لینے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں۔ یورپی یونین، انگلینڈ، فرانس اور دوسرے کئی یورپی ممالک اس معاملے میں بڑے واضح ہیں۔ وہ سیاست کو ذاتی انتقام اور تعصب سے دور رکھنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ امریکہ اس معاملے میں سرِ فہرست ہے اور اس کے دو اہم مشیر بغیر کسی لگی لپٹی کے حکومت کو وارننگ دے رہے ہیں۔ پاکستان کی ساری تجارت یورپ اور امریکہ سے منسلک ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ، جنگی ساز و سامان اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی یورپی اقوام ہی سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت یورپی اور امریکی دباو کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس لیے ڈائیلاگ کی پٹاری سے مخصوص جماعت کے لیے ریلیف کا راستہ نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
دوسری طرف زور آور اس سارے منظرنامے کو گہری نظر سے دیکھ رہے ہیں اور حکومت کوکسی سمجھوتے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ بہت ہوچکا۔ لہٰذا اب چوہے بلی کا کھیل بند ہو جانا چاہیے۔ عوامی رائے کا احترام ہونا چاہیے۔انتخابات شفاف اور غیر جانب دار ہونے چاہئیں، تاکہ ملک میں امن و سکون ہو اور معاشی اور مالیاتی بدحالی کا خاتمہ ہو۔ خدارا! عوامی حاکمیت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی بہ جائے عوامی رائے کو قبولیت کی سند عطا کریں، تاکہ خوش حالی اور ترقی کا نیا باب رقم کیا جاسکے۔
اس طرح اداروں کو بھی اپنی حدود میں رہنا ہوگا۔ نہیں تو اس ملک میں سیاسی استحکام کبھی نہیں آئے گا۔ ہم نے اس ملک میں طاقت کے مظاہر ے بڑے دیکھے ہیں اور ان کا انجام بھی سب کی نگاہوں کے سامنے ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہر کوئی آئین کے سامنے سر نگوں ہوجائے کہ یہی سب سے بہترین راہ ہے۔ یہی ملک کی ترقی، استحکام اور اس کی مضبوطی کی راہ ہے۔ ہمیں ذاتی انا اور برتری کی قربانی دے کر اس راہ پر چلنا ہوگا۔
یہ پوری قوم کے دل کی آواز ہے جس میں ملکی بقا کا راز پنہاں ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے