نومبر 1993ء سے شروع ہونے والا بونیر میں میرا دوسرا سپیل پہلے کی طرح رنگین نہیں تھا۔ مَیں اب 50 سال کا ہوچکا تھا اور ایک متحرک نوجوان کی دل کشی اور رنگین مزاجی کھوچکا تھا۔ کلاس ون رہایش گاہ میں رہنے کا عیش و آرام قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ اب اگلے پانچ یا چھے سالوں کے لیے، ہمارے پاس کالج کیمپس کے پیچھے دو کمروں کا پرائیویٹ کوارٹر تھا۔ میرا پرانا نوکر ملوک، جسے حکومت تنخواہ دیتی تھی، کے بہ جائے ہمارے پاس سنیگرام، بونیر سے ایک باورچی تھا، جسے ہمیں اپنی جیب سے تنخواہ دینی پڑتی تھی۔ ہمیں فرش پر سونا پڑتا۔ کیوں کہ رہایش گاہ میں چارپائی وغیرہ کے لیے جگہ میسر نہیں تھی۔ چند ماہ بعد وہ نوکر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور مَیں نے اپنے ایس ڈی او سے کہا کہ مجھے گھر کے کام کاج کے لیے سابقہ ’’سڑکی‘‘ ملوک رکھنے کی اجازت دی جائے۔ جب ملوک نے کچن سنبھالا، تو جیسے کچھ پرانے دنوں کی رنگینی واپس آگئی۔ اس کے بیٹے اب بڑے ہوچکے تھے اور باورچی خانے میں اپنے والد کی مدد کرتے تھے۔
ہمارے زمانے کے ڈگر کالج کا پرانا سٹاف اب وہاں نہیں تھا، سوائے کلپانئی کے حمید الرحمان خان کے۔ ان کے والد اشتر خان علاقے کے با اثر آدمی تھے۔ سواڑئی اب بونیر کا ایک ابھرتا ہوا تجارتی مرکز تھا، جس میں پلازے، بازار اور ہوٹل تھے۔ ہفتہ وار تجارتی میلہ اب بھی بونیر کی مرکزی خصوصیت تھا، جو ہر ہفتے کے دن لگتا اور بونیر اور مردان سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا۔
مَیں ہائی وے سب ڈویژن ڈگر سے منسلک تھا۔ بد قسمتی سے، ریاستِ سوات کے پاکستان کے ساتھ انضمام کے بعد، میں نے اپنی زیادہ تر سروس لائف روڈز سیکشن میں گزاری۔ وہ فیلڈ سٹاف جو غلط طریقے استعمال کرتے ہیں، ہمیشہ روڈ سیکشن کو ترجیح دیتے ہیں اور پیسا کماتے ہیں، لیکن میں کم زور دل والا ڈرپوک آدمی تھا۔ اصولوں سے ہٹ کر ہر حرکت میں، مجھے ہتھکڑیاں نظر آتیں۔ اس لیے مجھے ہمیشہ پیسے کی کمی کے ساتھ جینا پڑا۔ بدقسمتی سے، میرے چند شغل ایسے تھے جن کو پورا کرنا میرے وسائل سے زیادہ تھا۔ اس بات نے مجھے ہمیشہ پریشان کیے رکھا۔
ایک دن جب مَیں صبح کی سیر کے لیے کالج کی پراپرٹی کی زمین سے گزر رہا تھا، تو مَیں نے گیٹ کے ایک ستون کے اوپر کوئی چیز دیکھی، جس کا رُخ مرکزی سڑک کی طرف تھا۔ پہلی نظر میں مجھے لگا کہ یہ گھنگریالی اون والی موٹی بھیڑ کا سر ہے، لیکن جب مَیں اس کے قریب پہنچا، تو کانپ گیا اور میرا جی متلانے لگا۔ لگ رہا تھا مَیں قے کر لوں گا۔ یہ ایک نوجوان کا سر تھا، جو ٹینٹوے کے بالکل اوپر کاٹا گیا تھا۔ اس کا چہرہ سڑک کی طرف تھا، کھلی آنکھیں سیدھی سامنے دیکھ رہی تھیں۔ مَیں بھاگ کر واپس اپنے کوارٹر چلا گیا۔ میرے دوست ابھی تک سوئے ہوئے تھے۔ مَیں نے انھیں جگایا اور کٹے ہوئے سر کے بارے میں بتایا۔ ان میں سے ایک گیٹ کی طرف بھاگا۔ اب بہت سے لوگ جمع ہوچکے تھے اور لڑکے کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ خون میں لتھڑی ایک بوری ایک طرف پڑی تھی، جس میں وہ سر وہاں پہنچایا گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے چہرہ پہچان لیا اور ایک دوسرے سے سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ ہمارا دوست معلومات کرکے واپس آیا۔ اس نے بتایا کہ یہ ڈگر کے یعقوب خان کے پوتے یونس کا سر ہے۔
اس نوجوان لڑکے نے اسی مقام پر اپنے والد کے مبینہ قاتل سید رؤف خان کو دو بیٹوں سمیت ان کی گاڑی میں قتل کیا تھا۔ اس کی اندھا دھند فائرنگ کے دوران میں گزرتے ہوئے ایک پک اپ میں ایک اور لڑکا بھی مارا گیا تھا۔ ہم ڈگر میں اپنے دفتر گئے اور وہاں سے دوسرے افسروں کے ساتھ ڈگر گاؤں گئے۔ یہ ایک عجیب اور غیر معمولی صورتِ حال تھی۔ لوگ یعقوب خان کے حجرے پر گئے اور چند منٹ خاموش بیٹھنے کے بعد کچھ کہے بغیر چلے گئے۔ پھر یہ لوگ سید رؤف خان کے بڑے بھائی عبدالرؤف خان کے حجرے پر چلے گئے۔رؤف خان نے صرف یہ الفاظ کہے: ’’اللہ دے خیر کی۔ کار اوشو۔‘‘ لیکن پولیس اور عام لوگوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب یونس کی والدہ اور بہن نے اس بات سے انکار کر دیا کہ یہ سر یونس کا ہے۔ چناں چہ پولیس نے سر کو امانتاً دفن کر دیا۔
اس خاتون نے اپنے عزیزوں کو بتایا کہ اگر ہم تسلیم کریں کہ یہ سر یونس کا ہے، تو قاتل لاش کو اپنے پاس رکھیں گے اور کچھ مدت کے بعد پھینک دیں گے، تو انھیں لاش پھینکنے دیں۔ اور لاش کوئی چالیس دن بعد تنگو پل، گاگرہ کے قریب بارندو خوڑ سے ملی۔
مَیں سال 93/94ء میں بڑے مالی مسائل کا سامنا کر رہا تھا۔ مجھے اپنے جی پی فنڈ سے 10,000 روپے کی رقم نکالنی پڑی۔ ہمیں سواڑی پرائیویٹ کوارٹرز سے ڈگر میرہ کے پرائیویٹ رہایش گاہوں کے دوسرے بلاک میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ یہاں "XEN” اور "SDO” سمیت باقی عملہ بھی سرکاری رہایش گاہوں میں مقیم تھا۔ ہمارا "SDO” ہائی وے ایک پرائیویٹ گھر میں رہتا تھا۔
پی پی پی کے ایم پی اے نادر خان کے انتقال پر سیاسی صورتِ حال یک سر تبدیل ہوگئی۔ ضمنی انتخابات کا اعلان ہوا اور اس وقت کے وزیرِ اعلا پی پی پی کے آفتاب شیر پاؤ کسی بھی قیمت پر یہ نشست کھونا نہیں چاہتے تھے۔ دو صوبائی وزرا احمد حسن اور دوست محمد کی جیت کو ممکن بنانے کا ٹاسک دیا گیا۔ وہ دونوں ہمارے دفتر کے قریب ہی ایک کلرک کوارٹر میں شفٹ ہوگئے۔ مجھے حکم دیا گیا کہ پورے علاقے کے دوروں میں، مَیں مستقل ان کے ساتھ رہوں۔ ہم صبح سویرے نکلتے اور شام کو دیر سے لوٹتے۔ لوگوں کے مطالبات نوٹ کرتے اور پھر لاگت کے تخمینہ کی تیاری کے لیے جمع کراتے تھے۔ شیرپاؤ نے خود بھی انتخابی حلقے کے بیش تر حصوں کا دورہ کیا اور تین کنکریٹ پلوں کی تعمیر کی منظوری دی، دو طوطالئی میں اور ایک کلیاڑئی میں۔ مَیں نے ان پلوں کا ’’پی سی ون‘‘ تیار کیا اور محکمہ پی اینڈ ڈی سے منظوری لی۔
ٹینڈرز جاری کیے گئے۔ کلیاڑئی کے پل کی نگرانی مجھے اور طوطالئی کے دو پلوں کی نگرانی میرے ساتھی محسن شاہ سب انجینئر نے کرنی تھی۔ حکم ران جماعت پی پی پی نے یہ سیٹ جیت لی، لیکن اس پر حکومت کا 47 کروڑ روپے کا خرچہ ہوا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ مقررہ وقت سے چار ماہ قبل پل مکمل ہوگیا اور وزیرِاعلا نے خود اس کا افتتاح کیا۔ اسی دوران میں مجھے سیدو ہائی وے آفس سے "XEN” ہائی وے سوات سے ملنے کے لیے بلایا گیا۔ وہاں پہنچ کر مجھے اطلاع ملی کہ مجھے اے سی ای سوات کی جانب سے درج مقدمے میں نام زد کیا گیا ہے۔ یہ سن کر میں دنگ رہ گیا۔ مَیں نے زندگی بھر ناگفتہ بہہ حالات میں کرپشن کو روکنے کے لیے کتنی جد و جہد کی تھی، مگر وہ مسٹر ایکس……! خیر، جب مَیں سیدو پہنچا اور متعلقہ انسپکٹر سے ملا، تو وہ بھی حیران تھا کہ اس مقدمے میں میرا نام کیسے ڈالا گیا ہے؟ مختصر یہ کہ مَیں نے چند گھنٹوں میں سیشن جج سے بی بی اے کرالیا اور جب ٹیکنیکل رپورٹ آئی، تو میری ضمانت کنفرم ہوگئی۔ مجھے مزید سماعت کے لیے اینٹی کرپشن کورٹ میں حاضری سے بھی استثنا دے دیا گیا۔ مسٹر ایکس کو چار ایف آئی آرز میں نام زد کیا گیا تھا۔ مَیں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ مجھے پہلی پیشی ہی میں بے گناہ قرار دیا گیا اور مجھے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔
کئی ایکس ای این اور ایس ڈی اوز کو آزمایا گیا، مگر بے سود۔ کیوں کہ اب مسٹر ایکس ایک وی آئی پی بن چکا تھا۔ مَیں نے اپنے ساتھ اس نا انصافی اور غیر منصفانہ سلوک کے بارے میں بہت غور کیا۔ مَیں نے اسے اپنی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش سمجھا۔ مجھے ہمیشہ ہر مشکل کام کا ماسٹر سمجھا جاتا تھا۔ مَیں محکمہ میں بہت سی انکوائری ٹیموں کا رکن رہا تھا، جیسے کہ کولنگئی آگرہ روڈ واہ بوفورس کے خلاف، مارتونگ کابل گرام روڈ آر ڈی ڈی کے متعلقہ عملے کے خلاف، سیدو ہسپتال کی دیکھ بھال سسٹر ڈیپارٹمنٹ کے خلاف۔ مَیں شک و شبہ سے بالاتر ایمان داری اور دیانت داری کے لیے شہرت رکھتا تھا، تو مَیں نے اس کیس کے بارے میں بہت برا محسوس کیا۔
1998ء میں چیف انجینئر سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے حکم سے میرا تبادلہ ڈگر سے ہائی وے ڈویژن سوات کر دیا گیا۔ میرے آنے کے فوراً بعد میرے سیکشن میں سیدو لنڈاکی روڈ کی بہ حالی کا کیش پروگرام شروع ہوا۔ یہاں بھی مجھے مسٹر ایکس قسم کے ٹھیکہ داروں کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے اختلافات آخری نقطہ تک پہنچ گئے، لیکن میں تمام مشکلات کے خلاف ثابت قدم رہا۔ لہٰذا، جیسا کہ پاکستان میں ایک عام بات ہے، مجھ ہی کو سب بھگتنا پڑا اور ایک خان کی قیادت میں مافیا نے میچ جیت لیا۔ 1999ء میں، جب پرویز مشرف نے منتخب حکومت کو نکال باہر کر دیا، تو مسٹر ایکس اس کا دایاں بازو بن گیا۔ اب وہ ملک کے ہر قانون سے بالاتر تھا۔ یہاں تک کہ ایک فوجی ٹیم، جو کہ کروڑہ چکیسر روڈ پر پوچھ گچھ کر رہی تھی، اسے چھو تک نہیں سکی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پروجیکٹ کا کیا ہوا؟ کیوں کہ مَیں اپریل 2003ء میں ریٹائر ہوگیا تھا۔ 2000ء میں میرے بڑے بیٹے ہمایوں خان کی شادی ہوئی۔ اس کے سسرال کا تعلق سپل بانڈئی کے ایک معزز خاندان سے ہے، جو اب مستقل طور پر کینیڈا میں آباد ہے۔ میرے چھوٹے بیٹے کی اپنی کزن سے 1989ء میں شادی ہو گئی تھی۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
