سیاسی مکالمہ: تنقید برائے تعمیر

Blogger Advocate Naseer Ullah

ملکی سیاست میں مختلف سیاسی مسائل پر سیاسی کارکنوں کو اپنی پارٹی کو سپورٹ کرنے کے لیے مختلف حیلے اور بہانے بنانا پڑتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب سیاسی ورکر اپنی پارٹی کے ہر عمل کا دفاع کرتے ہیں۔ جو حق پر ہو، اُس کی تعریف کرتے ہیں اور غلط ہونے پر، چاہے اپنی پارٹی ہی کیوں نہ ہو، اُس کی مخالفت میں ڈٹ جاتے ہیں۔ اس سے انھیں یہ خطرہ نہیں رہتا کہ وہ کس پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس کے نتائج کیا ہوں گے!
اگر کوئی فرد کسی مسئلے کی نشان دہی کرے، تو سیاسی طور پر نابالغ افراد اپنے غیر سیاسی رویے کی وجہ سے جائز اور ناجائز تنقید کو اپنا وطیرہ سمجھتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں مکالمے کا فقدان ہے اور بس کسی طرح پارٹی کا غلط طور پر دفاع کرنا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی کہتا ہے کہ حالیہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے، تو اس کے لیے حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پچھلے الیکشنوں میں بھی دھاندلی ہوئی تھی۔ یہ بھی سننے کو ملے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لے کر فُلاں پارٹی اقتدار میں آئی تھی اور فُلاں پارٹی کو بہ ذریعہ عدالت نکال دیا گیا تھا۔ لہٰذا اب اگر موجودہ پارٹی دھاندلی سے بھی آئی ہے، تو اس کو کچھ کہنا غلط ہے۔ واہ کیا دلیل ہے!
اگر پہلا غلط تھا، تو دوسرا ٹھیک کیسے ہوسکتا ہے؟ لیکن اس پر نہیں سوچا جاتا، بس اپنے نظریات کو عوام پر ٹھونسا جاتا ہے اور ذو معنی جملوں کے ذریعے ایک دوسرے کو زِچ کرنے کا طریقہ نکالا جاتا ہے۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ کچھ افراد اپنی پارٹی کا دفاع کرنے کے لیے فلسفیانہ افکار کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ طنز و تشنیع کے ذریعے بھی مخالف کو زِچ کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ تہمتیں اور سازش اس کے علاوہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جب کوئی انتظامی معاملات میں کرپشن، نا اہلی، کرپٹ پریکٹس اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا تذکرہ کرتا ہے، تو اُس کا موازنہ بھی اسی طرح کیا جاتا ہے۔ پہلے تو بہت زیادہ کرپشن نہیں تھی، لیکن اب حکومتی سرپرستی میں انتظامی افسران کے چھتری تلے بڑی کرپشن کی جاتی ہے۔
بھائی، کرپشن کو کرپشن ہی کہنا چاہیے۔ اس کا موازنہ چھوٹا ہوتا ہے نہ بڑا۔ ماضی اور حال بے معنی ہیں۔ اس کرپشن کو کسی بھی طریقے سے ختم کروانا چاہیے۔ صرف نکتہ چینی کے لیے کرپشن کا تذکرہ بے معنی ہوگا۔ البتہ آگاہی کا عنصر ایک الگ حقیقت ہے، جس کو آشکار کرنا ضروری ہے۔
اگر حکومت یوٹیلٹی بلوں میں اضافے یا کمی کرتی ہے، تو سیاسی ورکر اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اس کو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اس کی ستایش اور سرزنش کی بہ جائے بے ادبی اور بد اخلاقی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال کے طور پر حکومتِ پاکستان کو بجلی کا ایک یونٹ 3 روپے کے لگ بھگ ملتا ہے، لیکن عوام کو 50 روپے سے زیادہ کے عوض فروخت کرنا دانش مندانہ اقدام نہیں ہوسکتا۔ اس جیسی نا اہلیوں کے خلاف آواز اٹھانا پچھلی حکومتوں میں بھی جائز تھا اور اب بھی جائز ہے۔
آئی پی پیز کو متعارف کرانے اور بجلی کی کھپت پوری کرنے کے لیے پچھلی حکومتوں نے جتنی کرپشن کی ہے، اس کی مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ملک میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کاروبار ٹھپ پڑا ہے۔ یہ لوڈ شیڈنگ سے بجلی تک محدود نہیں، بل کہ ’’ایکس‘‘ اور ’’میڈیائی لوڈ شیڈنگ‘‘ بھی ہر وقت جاری رہتی ہے۔ بڑے شہروں میں 6 سے 8 گھنٹے، چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں 8 سے 12 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، جو کہ ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اس کے خلاف آواز اٹھانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔
بجلی کی کمی کے باوجود حکومتی اہل کاروں اور اعلا افسروں کو بجلی کی مفت ترسیل کی جاتی ہے۔ اے سی چلانا مفت ہے۔ صاحب بہادر اپنے آفس میں بیٹھ کر گرمی میں اے سی چلا کر سردی جیسا مزا لیتے ہیں اور سردی میں انورٹر چلا کر گرمی جیسا مزا لیتے ہیں۔ مقتدرہ کا حساب کسی کتاب میں نہیں۔ لہٰذا ہاتھ ذرا ہولا رکھیے۔
افسران اور حکم ران جب دورے پر گھر کے لیے یا کسی خاص مقصد کے لیے باہر نکلتے ہیں، تو ان کو تمام آسایشیں میسر ہوتی ہیں…… تو پھر کیوں وہ کسی مسئلے میں جان جوکھوں میں ڈالیں، گرمی برداشت کریں یا سردی کا سامنا کریں؟ بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے آفس میں بیٹھے رہیں، چاہے سردی ہو یا گرمی۔ ترقی کا یہ ماڈل شاید کسی اور ملک میں ملے نہ ملے، لیکن پاکستان میں ضرور ملتا ہے۔
طنز کا مطلب یہ نہیں کہ باصلاحیت اور خوددار افسروں اور حکومتی اہل کاروں کی ستایش نہ کی جائے۔ سرکاری، حکومتی اور مقتدرہ کو بجلی کی مفت رسائی پر آواز اٹھانا ہم سب کی ذمے داری ہے۔ اگر عوام کے لیے بجلی مہنگی اور ناپید ہے، تو امرا و شرفا کے لیے بھی یہی پیمانہ ہونا چاہیے۔
گیس بلوں میں غیر متوقع ہوش رُبا اضافے عوام کے لیے چونکا دینے والے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر گیس کا ایک یونٹ 2 ہزار روپے کے عوض فروخت ہوتا ہے، تو دوسرا یونٹ 10 ہزار روپے، تیسرا یونٹ 20 ہزار روپے، چوتھا یونٹ 40 ہزار روپے، پانچواں یونٹ 80 ہزار روپے اور چھٹا یونٹ 1 لاکھ 20 ہزار روپے کے عوض فروخت ہوتا ہے۔ یہ ترقی نہیں، بل کہ عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ مہذب ملکوں میں گیس کے یونٹ کی قیمتیں کم ہوتی ہیں، لیکن یہاں گنگا اُلٹی بہتی ہے۔
ہسپتال جائیں، تو کبھی ایکس رے مشین کی خرابی، کبھی ایم آر آئی کی خرابی، کبھی لیبارٹری اور کبھی ضروری ادویہ کی کمی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر مریض کو بروقت متعلقہ ڈاکٹر مل جائے، تو اُسے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
اسی طرح پاکستان میں تعلیم کی حالت بہت خراب ہے۔ نہ اسے بجٹ میں پیسے ملتے ہیں اور نہ سکولوں میں بچوں کا بوجھ کم کرنے کے لیے اقدامات ہی کیے جاتے ہیں۔ بچوں کو استاد اور کتابیں میسر نہیں، نہ انھیں کوالٹی ایجوکیشن فراہم کی جاتی ہے۔ ان کے لیے کوئی پلے گراؤنڈ، سیر و تفریحی مقامات، یا ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود نہیں۔ کھیل کا میدان اور لائبریری بھی دست یاب نہیں۔ ان حالات میں بچے اعلا تعلیم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
بیش تر والدین نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم کی بہ جائے بچوں کو کم عمری ہی میں کوئی ہنر سکھایا جائے، جس کے لیے انھیں مستری خانے، ہوٹل، کلب، ریسٹورنٹ، چوکی داری، بیکری اور کچرا اٹھانے کے کام پر لگایا جاتا ہے، جس سے اُن کی تکلیف کچھ کم ہوجاتی ہے۔
پولیس اور پٹوار خانوں میں کرپشن کی کہانیاں، عوام دَہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں۔ یہ ادارے غربا اور امرا دونوں کو لوٹنے میں ماہر ہیں۔ اس لیے ان کا ذکر یہاں غیر ضروری ہوگا۔
عدالتوں کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ جائیداد اور اراضیات کے مقدمات لاکھوں کی تعداد میں زیرِ التوا ہیں اور ججوں کی کمی کی وجہ سے ایک مقدمہ نمٹانے میں 5 تا 15 سال لگ سکتے ہیں۔ ان سالوں میں جج صاحبان، سائلین کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور وکلا اور منشی حضرات بھی ان سے پیسے بٹورتے رہتے ہیں۔ کیا یہ حکومت کا فرض نہیں کہ وہ افراد کی تعداد کے مطابق مناسب جگہوں میں عدالتیں مقرر کرے اور ججوں کی تنخواہوں میں کمی کرے، تاکہ تیز تر اور کم خرچ انصاف فراہم کیا جاسکے؟
تحصیل میں ایگزیکٹو مجسٹریٹ، اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر افسرانِ مال عموماً قانون کے طالب علم نہیں ہوتے اور جائیداد، ریونیو، مالیاتی مسائل اور کریمنل اختیارات پر عدالتی حکم لگاتے ہیں، جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ تحصیل کورٹ میں انتظامی افسران کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل افسران کی تعلیمی قابلیت کو مدنظر رکھا جائے۔
عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ میں جائیداد، اراضیات، وراثت، فیملی، ریونیو، وغیرہ کے علاوہ جتنے بھی ریاستی، حکومتی اور آئینی مقدمات ہوتے ہیں، وہ اکثر سیاست زدہ ہوجاتے ہیں اور ان میں انصاف کی توقع کرنا مشکل ہے۔ ریاستی اداروں کا ججوں پر کافی اثر ہوتا ہے، انھیں دھمکیاں دی جاتی ہیں اور عوام و مملکت کے حق کے برخلاف فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اب تو جج بھی کہتے ہیں کہ انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے، لیکن انھیں بھی انصاف ملنے کی توقع مشکل ہے۔ اس صورتحال میں عوام کا کیا بنے گا؟ آپ خود سوچیے۔
اس بحث کا مقصد یہ ہے کہ عوام، خصوصاً سیاسی کارکن، اپنی پارٹی کی غلطیوں پر تنقید برائے تعمیر کرسکیں اور دوسری پارٹی کو بھی ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے تنقید برائے تعمیر کی اجازت دے سکیں۔ اگر صرف اپنی پارٹی کے لیے اور اپنے رہ نماؤں کو خوش کرنے کے لیے کسی سوال کا جواب دیا جائے گا، ملامت کی جائے گی، گالی دی جائے گی یا ان کے خلاف سازش رچائی جائے گی، تو یہ انسانیت سے گری ہوئی بات ہوگی۔
ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ موجودہ حالات میں ہم اس ملک میں ترقی کی گنجایش کو مزید بڑھائیں۔ اگر ہم اپنے یقین کے ساتھ اس کی ترقی، فلاح وبہبود کے لیے کوشش کریں اور حکم ران طبقہ کی توجہ اس طرف دلائیں تو شاید ہماری مشکلات کم ہوسکتی ہیں۔
ہمیں ایسی فضا بنانی چاہیے جس میں مکالمہ ہو، بحث برائے بحث نہ ہو اور ایک دوسرے کو زِچ کرنے کا طریقہ نہ اپنایا جائے، بل کہ ایک دوسرے کو اپنی رائے اور تجاویز دینے کا کھلا اختیار دیا جائے، جہاں سیاسی بردباری پائی جائے۔ اس سے سیاسی عدم استحکام میں کمی آسکتی ہے اور ملک ترقی کی راہ پر گام زن ہوسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے