تحریر: ستار طاہر
’’نکولائی واسیلی وچ گوگول‘‘(Nikolai Vasilyevich Gogol) یوکرین میں 1809ء میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی میں اُس نے یوکرین کے فوک اَدب اور کرداروں سے گہری واقفیت پیدا کرلی تھی۔ یوکرین ہی میں اُس نے تعلیم حاصل کی۔ وہ 18 برس کا تھا کہ اُس نے پیٹرز برگ کا رُخ کیا۔ تب اُس کا ارادہ سٹیج اداکار بننے کا تھا، لیکن اس میں وہ ناکام رہا اور نتیجے میں اُسے کلرکی کرنا پڑی۔ کچھ عرصے ایک سکول میں بھی پڑھاتا بھی رہا، مگر اپنی ملازمتوں سے غیر مطمئن تھا۔ اُس زمانے میں اُس نے ایک نظم لکھی، جو اُس کے نام کے بغیر شائع ہوئی۔ اُس کی ہمت بندھ گئی۔
گوگول کی شہرت کا آغاز کہانیوں سے ہوتا ہے۔ جب اُس کی کہانیوں کا مجموعہ ’’دیکانکا کے پاس گاؤں کی شامیں‘‘ شائع ہوا، تو بہ طورِ ادیب اور کہانی کار اُس کی لازوال شہرت کا آغاز ہوا۔ انھی کہانیوں کی وجہ سے وہ روس کے عظیم شاعر اور جدید روسی ادب کے بانی پُشکن کی قربت میں پہنچا۔ وہ پُشکن کا مداح بن گیا۔ اُس کا زیادہ تر وقت پُشکن کی رفاقت میں بسر ہوتا۔ اُس زمانے میں اُس نے اپنے ایک دوست کے نام ایک خط میں لکھا تھا: ’’مَیں نہیں جانتا کہ مَیں چند دنوں کے بعد کہاں ہوں گا، لیکن اگر مجھے پُشکن کی معرفت اس کے پتے پرخط لکھا جائے، تو یہ خط مجھے ضرور مل جائے گا۔‘‘
گوگول کو اُس کی کہانیوں کی اشاعت کی وجہ سے پیٹرز برگ یونیورسٹی میں اسسٹنٹ لیکچرار لگایا گیا، لیکن اِس سے اُس نے کم ہی فائدہ اٹھایا۔ اُس کی لیکچرر شپ کا زمانہ بہت مختصر رہا۔ اُس کے شاگردوں میں ترگینف بھی شامل تھاِ جو ساری عمر گوگول کا مداح اور اُسے پوجتا رہا۔
گوگول جہاں بہ حیثیت انسان بہت عجیب و غریب شخص تھا، وہاں وہ بعض لازوال تخلیقات کی وجہ سے بھی ساری دُنیا کے لیے اب تک دل چسپی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اُس نے یوکرین کے علاقے اور اس کے لوگوں، ثقافت اور رسم و رواج کو زندۂ جاوید کر دیا۔ عالمی ادب کا کون سا ایسا طالبِ علم ہے، جس نے گوگول کے شاہ کار ’’تاراس بلبا‘‘ کو نہ پڑھا ہو۔ ایک ایسی طویل کہانی یا ناولٹ جس نے اپنی اشاعت کے دور سے لے کر اب تک ساری دُنیا کو متاثر کیا ہے۔ آزادی کے لیے لڑنے والوں، شجاع کرداروں کے حوالے سے ’’تاراس بلبا‘‘ ایک لافانی کردار ہے۔ دُنیا کے شاہ کار افسانوں کی جب بھی فہرست بنے گی، اُس میں ’’اوورکوٹ‘‘ کا نام شامل ہو گا۔ دوستوئفسکی نے اوورکوٹ کے حوالے سے لکھا تھا، ’’روسی ادب نے گوگول کے اوورکوٹ سے جنم لیا ہے۔‘‘ اس عظیم کہانی کا ترجمہ دُنیا کی ہر زبان میں ہوچکا ہے۔ عالمی کہانیوں کا انتخاب اس کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔
گوگول کی آخری تخلیق ’’ڈیڈسولز‘‘ تھی۔ 2 جون 1842ء کو اس کا پہلا حصہ شائع ہوا۔ اسے خاصی شہرت ملی، لیکن یہ گوگول کی توقع سے بہت کم تھی۔ تاہم اسے یقین تھا کہ اس ناول کے بعد میں لکھے جانے والے حصے پورے رُوس کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ دوسرے حصے میں گوگول رُوس کی روح کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذات کے معمے کو بھی حل کرنا چاہتا تھا۔ تیسرے حصے میں وہ اس ناول کے حوالے سے رُوس کونجات کا راستہ دکھانے کا خواہاں تھا، لیکن اب وہ ذہنی علالت کے اُس درجے پر تھا کہ اُس سے کچھ لکھا نہ جارہا تھا۔ جون 1845ء میں اُس نے ’’ڈیڈ سولز‘‘ کے اس دوسرے حصے کو خود نذرِ آتش کردیا جتنا کہ اُس نے اُسے اب تک لکھا تھا۔ یہ واقعہ 24 فروری1852ء کی رات کو پیش آیا اور اِس کا اُسے گہرا صدمہ ہوا۔ اپنی عظیم تخلیق کو اپنے ہاتھ سے جلا دینے کے غم نے اُسے ہمیشہ کے لیے بستر سے لگا دیا۔ غذا کو ہاتھ لگانا چھوڑ دیا اوراسی فاقہ کشی کے عالم میں اپنے مسودے کو نذرِ آتش کرنے کے 9 دن بعد 4 مارچ 1852ء کو گوگول چل بسا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
