(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
مجھے یاد نہیں کہ عوام میں یہ مغالطہ کیسے پروان چڑھا کہ اُس وقت کی ریاستِ سوات کے صدر مقام سیدو شریف میں بکریوں اور مرغوں کی گھروں میں پالنے کی اجازت نہیں تھی۔ مَیں نے ایسا کوئی حکم نامہ نہیں دیکھا جس میں ان پالتو جانوروں پر پابندی لگائی گئی ہو۔ ہاں، ایک بات یقینی ہے کہ چھوٹے بچے بکروں اور مرغوں کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ کیوں کہ وہ اپنے سکولوں اور گھروں تک محدود تھے۔اس ضمن میں، مَیں اپنے دو ذاتی تجربات بیان کرتا ہوں، جن سے معلوم ہوگا کہ سیدو میں ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔
یہ 1964ء کا سال تھا۔ ہم افسر آباد، سیدو شریف سوات میں رہ رہے تھے۔ ہمارے گھر کے ایک طرف ایک بڑا میدان تھا جس کے قریب چنار کے پرانے، اُونچے اور مضبوط درخت تھے۔ مشرقی جانب، ہمارے ہاں ایک چھوٹا قطعۂ زمین تھا، جہاں ہم کچھ سبزیاں جیسے کدو، بھنڈی اور ٹماٹر، چھوٹے پیمانے پر اُگاتے تھے۔ اس کے لیے عوامی ٹینک سے پانی لانا پڑتا تھا، جو افسر آباد کی مسجد کے قریب تھا، جو ایک مشکل عمل تھا۔ ایک دن ہم ایک چارپائی پر بیٹھے تھے، میرے دو چھوٹے بھائی، جن کی عمر 7 سے 10 سال تھی، اخروٹوں سے کھیل رہے تھے۔ اچانک ایک بکری سڑک سے ہمارے لان میں آئی اور سبزیوں کی طرف لپکی۔ مَیں نے اس کی طرف ایک پتھر پھینکا اور اُسے بھگا دیا۔ مَیں نے اپنے 10 سالہ بھائی سے پوچھا: ’’کیا تم جانتے ہو، یہ کیا تھا؟‘‘اس نے کہا: "دا منگک وو!‘‘ یعنی یہ چوہا تھا۔ مَیں نے سب سے چھوٹے بھائی سے پوچھا اور اُس نے کہا کہ بلی تھی۔
اَب میں ایک اور واقعہ بیان کرتا ہوں۔ رمضان کا مہینا تھا۔ مَیں اسی چنار کے نیچے ایک چارپائی پر لیٹا تھا۔ گرم دوپہر میں نیند لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اچانک ایک مرغا آیا اور میری چارپائی کے نیچے رُک گیا۔ کچھ دیر تک خاموش رہا۔ پھر اُس نے اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے زور سے ککڑوکوں کی آواز لگائی۔ مَیں بہت جھنجھلایا اور اس کی طرف ایک پتھر پھینکا۔ معلوم نہیں کہ یہ کیسے ہوا، لیکن حیرت انگیز طور پر، اُس کا سر دھڑ سے الگ ہو کر دور جا گرا، جیسے چاقو سے کاٹا گیا ہو۔ بغیر سر کا مرغا کچھ فٹ تک دوڑا اور پھر زمین پر گر پڑا۔ میں حیرت زدہ اور صدمے کی حالت میں تھا۔ معلوم کرنے کے بعد مجھے اس کے مالک کے بارے میں پتا چلا۔ اس کا تعلق ایک پرانے ’’سیدووال‘‘ محنت کش طبقے سے تھا، بہت گرم مزاج تھا اور گالم گلوچ اُس کی عادت تھی۔
افطار کے بعد شام کو، مَیں نے بے سرے مرغے کو اٹھایا اور اس کے دروازے پر دستک دی۔ وہ باہر آیا اور مَیں نے پورے واقعے کو ڈر ڈڑ کر ہکلے انداز میں بیان کیا۔ وہ اندر گیا اور اپنی بیوی سے تصدیق کی کہ اُن کا پسندیدہ ککڑ غائب ہے۔ وہ دوبارہ باہر آیا اور اول فول بکنے لگا۔ مَیں نے اسے کہا کہ آپ پُرسکون ہو جائیں۔ مَیں اس کی قیمت آپ کو ادا کر دوں گا۔ اس نے بے پروائی سے کہا، ’’نہیں، ہمیں بالکل اسی قسم کا مرغا چاہیے، اور کچھ نہیں۔‘‘ اگلی صبح مَیں نے اپنے ایک دوست سے کَہ کے، ویسا مرغا خریدا اور ’’اُستاد صاحب‘‘ کو دے دیا۔ تو یہ 1964ء میں سیدو شریف کے ایک حساس رہایشی علاقے کی اصل حقیقت تھی۔
تاہم، یہ افسر آباد کے آخری دنوں کی بات ہے۔ کیوں کہ افسر نئے جدید گھروں میں منتقل ہوچکے تھے اور افسر آباد کے سنہری دن ختم ہوچکے تھے۔ ہم بھی جلدی ہی بنگلہ نمبر اے بی 2 منتقل ہوگئے اور پھر افسر آباد گرا دیا گیا، زمین ہم وار کی گئی اور یہاں ایک سال کے اندر جدید مکانات تعمیر کیے گئے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
