ایک دن جب میں ڈویژنل آفس آیا، تو چترال کے سی اینڈ ڈبلیو ڈویژن میں میرا ٹرانسفر آرڈر میرے حوالے کر دیا گیا۔ مجھے سرفراز کی جگہ ٹرانسفر کیا گیا تھا، جب کہ اس کا کسی اور سٹیشن پر ٹرانسفر ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے مسٹر ایکس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ مَیں اپنی ضد چھوڑ دوں اور اس کی پسند کی بقائے باہمی کی حکمتِ عملی پر عمل کروں۔ مَیں نے اس کی خواہشات کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس طرح کے سلوک پر مَیں حیران تھا۔ بدعنوانی کے خلاف لڑنے والے میری اور دیگر تمام لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بہ جائے، میرا ایک ایسے علاقے میں تبادلہ کیا گیا، جسے محکمہ میں تعزیراتی سٹیشن سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ اُن لوگوں کے لیے جنت تھی جو پیسا کمانا چاہتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ عام کلرکوں کے پاس اپنی کاریں ہوتی ہیں۔
مَیں نے آرڈر کینسل کرانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہا۔ میرا پوتا منصور اس وقت تین سال کا تھا اور میں اس سے ایک دن بھی دور رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے پاس احکامات کی تعمیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ مَیں سیدو شریف ایئرپورٹ سے چترال جانے والی فلائٹ میں سوار ہوا۔ ان دنوں یک طرفہ ہوائی ٹکٹ 240 روپے تھا۔ مَیں اڑان کے 45 منٹ کے بعد چترال ایئرپورٹ پر اترا، ڈویژنل آفس گیا اور ہیڈ کلرک کو اپنی آمد کی رپورٹ جمع کرائی۔ "XEN” ایک دن پہلے پشاور گیا تھا۔
ایس ڈی اُو جلال خان نے ڈینن ریسٹ ہاؤس میں ایک ہفتے کے لیے ایک کمرا مختص کیا تھا۔ وہ سی اینڈ ای ڈیپارٹمنٹ میں صوبے کے سب سے بہترین افسر تھے۔ شام کے کھانے کے بعد، مَیں کمرے میں گیا اور بستر پر لیٹنے ہی والا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ مَیں نے دروازہ کھولا اور جلال صاحب کو شرمندہ سے انداز میں دروازے پر کھڑے دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ بہت معذرت خواہ ہیں، تاجکستان سے ایک وفد ابھی آیا ہے اور انھیں تمام ریسٹ ہاؤسز میں ایڈجسٹ کیا جانا ہے۔ لہٰذا مجھے ریسٹ ہاوس چھوڑنا پڑے گا۔ انھوں نے پہلے ہی سے ہوٹل ڈریم لینڈ میں ایک ہفتے تک میرے قیام کا انتظام کروالیا تھا اور ادائی بھی کر دی تھی۔ مَیں ان کے ساتھ ہوٹل پہنچا۔ یہ ڈینن ریسٹ ہاؤس سے زیادہ آرام دِہ تھا۔
اگلی صبح میں دفتر چلا گیا۔ ایکس ای این پشاور سے واپس آگیا تھا۔ وہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ وہ سوات میں میرا افسر رہ چکا تھا اور ہمیشہ میرے ساتھ برا سلوک کرتا تھا۔ اس کا نام صادق خان تھا اور چارسدہ سے تعلق تھا۔ فطرتاً وہ ایک سرکش اور مغرور خان تھا۔ اس نے مجھے اپنے دفتر بلایا اور کہا: ’’آپ کو یہاں دیکھ کر حیرت ہوئی۔ مجھے بونی سب ڈویژن میں ایک سنگین مسئلہ در پیش ہے۔ ایس ڈی اُو سے جیپ اپنے چارج میں لے لو۔ مَیں اس کی نااہلی سے تنگ آگیا ہوں۔ میں آپ کو اپنی طرف سے ایس ڈی او کے اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ پہلا مسئلہ بونی کالج کا ہے۔ آپ جس طرح چاہیں اس سے نمٹیں۔‘‘
مَیں جانتا تھا کہ وہ اتنا نرم خُو کیوں بن رہا تھا۔ اس وقت بونی کالج، ڈپارٹمنٹ کے ساتھ ساتھ پریس میں بھی ایک گرما گرم موضوع تھا۔ ایس ڈی اُو ایک رینکر تھا اور سال، دو سال میں ریٹائر ہونے والا تھا۔ میں نے "XEN” سے درخواست کی کہ وہ مجھے اس ’’فراخ دلانہ‘‘ پیشکش سے مستثنا قرار دے۔ میرے انکار سے ناراض ہو کر اس نے ڈراوِنگ برانچ میں میری پوسٹنگ کا حکم دے دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے سرفراز کو بھی فارغ نہیں کیا۔ کیوں کہ وہ ایک بہترین سب انجینئر تھا اور کوئی افسر اسے کھونے کا متحمل نہیں تھا۔
مجھے یاد آیا کہ جہانزیب کالج میں میرے دو چترالی کلاس فیلوز تھے۔ مَیں نے دفتر کے ایک مقامی کلرک سے پوچھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ عبداللہ پیپلز پارٹی کا ایک جانا پہچانا سیاسی کارکن ہے اور ’’کرُپ رشت‘‘ بازار میں زیادہ تر دکانیں اس کی ہیں۔ دوسرا کلاس فیلو عزیز اللہ ڈسٹرکٹ اکاؤنٹ آفس چترال میں سپرنٹنڈنٹ تھا۔ چناں چہ میں ایک شام عبداللہ سے ملنے چلا گیا۔ بازار سے آگے اسماعیلیوں کے ایک آدھ جلے جماعت خانہ کے قریب ان کا ایک بڑا مکان اور حجرہ تھا۔ اس نے میرا گرم جوشی سے استقبال کیا اور ہم نے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے ایک گھنٹا طویل گفت گو کی۔ اس نے اصرار سے کہا کہ جب بھی مجھے اس کی مدد کی ضرورت ہو اس سے رابطہ کروں۔ اگلے دن میں عزیز اللہ سے ملنے ڈی اے اُو آفس چترال گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر حد سے زیادہ خوش ہوا۔ وہ میری سروس کے کاغذات تیار کرنے میں بہت مدد گار ثابت ہوا اور جب مَیں اپنے ٹرانسفر کرانے میں کامیاب ہوگیا، تو اس نے جلدی سے میرے کاغذات کو نمٹا دیا۔
مَیں نے اپنے داماد ظہور احمد خان سے کہا تھا کہ وہ اپنے تعلقات کو سوات میں میری دوبارہ ٹرانسفر کو ممکن بنانے کے لیے استعمال کریں۔ بیوروکریسی کے اعلا افسران سے ان کے دوستانہ تعلقات تھے، لیکن وہ ایم پی اے جو مسٹر ایکس کی سرپرستی کر رہا تھا، وہ بہت بڑی رکاوٹ تھا۔ دریں اثنا، مَیں نے ڈینن ریسٹ ہاؤس میں ملازمین کے لیے بیچلر ہاسٹل میں اپنا کمرا خالی کر دیا اور تین سواتی اساتذہ کے ساتھ رہنے لگا، جو کامرس کالج کے ایک کمرے میں رہتے تھے۔ ضیاء الدین کا تعلق سیدو سے، جب کہ عبدالعظیم کا غالیگے سے تھا۔ تیسرا گوگدرہ کا رہایشی تھا جس کا نام مجھے اب یاد نہیں۔
ان کے ساتھ ایک ہفتہ گزارنے کے بعد، مَیں نے اپنے "XEN” کی اجازت کے بغیر چترال چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور اپنی ٹرانسفر کی کوشش شروع کی۔ مَیں اس بار صوبائی اسمبلی کے سیکرٹری کی سفارش سے پشاور گیا۔ مَیں اپنے چیف انجینئر سے ذاتی طور پر ملا۔ وہ مجھے پہلے سے جانتے تھے۔ کیوں کہ وہ سوات میں میرے ایکس ای این رہ چکے تھے۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ مَیں نے ایسا کیا کر دیا ہے کہ ایم پی اے بھی مشتعل ہے اور سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو بھی آپ کا نام سننے کو تیار نہیں۔ بہ ہرحال انھوں نے بونیر میں میری تعیناتی کے احکامات جاری کر دیے۔ مَیں نے آرڈر پکڑا اور اگلے دن چترال چلا گیا۔ مَیں نے اپنی روانگی کی رپورٹ جمع کرادی۔ عزیز اللہ نے اسی دن میری دستاویزات تیار کر لیں۔ یہ نومبر 1993ء کا ایک سرد دن تھا اور سرما کی پہلی برف باری ہو رہی تھی۔ مَیں اور تینوں سواتی ٹیچر اپنے سامان کے ساتھ ایک کھلی پک اپ میں چترال سے روانہ ہوئے اور لواری ٹاپ کے راستے اپنا سفر شروع کر دیا۔ ہماری خوش قسمتی تھی کہ لواری ٹاپ کئی مہینوں تک بند ہو جانے سے پہلے ہی نکل آنے میں کام یاب رہے۔
ایک دن کے آرام کے بعد میں ڈگر گیا اور اپنی آمد کی رپورٹ "XEN”، "C&W” بونیر کو پیش کی جو اب ایک ضلع بن چکا تھا، لیکن بونیر میں کوئی اسامی خالی نہیں تھی۔ "XEN” نے اس کے متعلق چیف انجینئر کو آگاہ کیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ مقامی طور پر انتظامات کرکے مجھے ایڈجسٹ کیا جائے۔ یوں بونیر میں میرا دوسرا سپیل شروع ہو گیا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
