90ء کی دہائی میں، جب کہ ابھی میرے والدِ بزرگوار حیات تھے، ایک دفعہ مجھے اُنگلی پکڑاتے ہوئے شاہ روان پلازہ (مینگورہ شہر کا مشہور لنڈا پلازہ) لے گئے۔ سردی کی آمد آمد تھی اور میرے پرانے جوتے گھِس گئے تھے، بل کہ داہنے پیر کا انگوٹھا جوتا پھاڑ کے ہوا خوری پر مامور تھا۔ والد (مرحوم) ایک جوڑا منتخب کرتے ہوئے اُس کی خوبیاں گنانے لگے: ’’بچونگڑیا! یہ مضبوط جوتا ہے۔ اس میں کھیلو، کودو اور دوڑتے پھرو۔‘‘ مَیں نے ناک سکیڑتے ہوئے بے زاری کا اظہار کیا، تو وہ برہم ہوئے۔ اُن کے ساتھ اُن کے رفیقِ کار (’’ابراہیم‘‘ مرحوم) بھی تھے۔ ابراہیم اُنھیں کہنے لگے:’’یار علی رحمان! یہ جوتا تم پہنوگے، یا امجد……؟‘‘ والد (مرحوم) فرمانے لگے، ’’ظاہر ہے امجد پہنے گا۔‘‘ تو ابراہیم ایک لمحہ ضائع کیے بنا بولے: ’’تو پھر جوتا امجد کی مرضی کا ہونا چاہیے!‘‘
ستمبر 2023ء کی بات ہے کہ عدن خان (میرا بڑا بیٹا) دفتر آیا۔ وہ فٹ بال کا رسیا ہے۔ آتے ہی ’’گرپرز‘‘ (Grippers) جوتا خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ مَیں نے ہم دمِ دیرینہ فضل خالق صاحب سے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ وجہ یہ تھی کہ میرے احباب میں کپڑے اور جوتے کی تمیز شاید ہی فضل خالق سے بہتر کوئی کرسکتا ہو۔ شاہ روان پلازے کے ارد گرد کئی اور پلازے لنڈے کے لیے آج کل مقبول ہیں۔ تقریباً سبھی کو چھان مارا۔ ایک جگہ ہمیں ایک جوتا پسند آیا، مگر صاحب زادے نے ہماری چوائس پر ناک سکیڑی۔ ایک اور جگہ بھی جب عدن خان نے ایسا کیا، تو مجھے اپنے مرحوم والد یاد آئے۔ بالآخر ایک جوتا ایسا ہاتھ آیا، جس پر ہم سب راضی ہوگئے۔
’’لنڈے‘‘ کو ہم پشتو زبان میں ’’کباڑ‘‘ کہتے ہیں۔ جمعہ کے روز مین بازار (مینگورہ سوات) ہم جیسے ’’کباڑیوں‘‘ کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ یقین مانیے اس دورِ ناگوار میں بھی ہمیں اکثر جمعہ بازار میں 300 روپے کے عوض اچھا جوتا مل جایا کرتا ہے۔
اب آتے آج کی تصویر کی طرف۔ دراصل شاہ روان پلازے کی ایک دکان میں ان جوتوں کی ترتیب اچھی لگی، اس لیے یہ منظر کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرلیا۔ تصویر ستمبر 2023ء کی ہے۔
(اگر یہ تصویر اچھے ریزولوشن میں درکار ہو، تو ہمارے ایڈیٹر سے ان کے ای میل پتے amjadalisahaab@gmail.com پر رابطہ فرمائیں، شکریہ)

One Response
Amjad Ali Sahaab–
a name that inspires respect, admiration, and gratitude in my heart. He is not just a mentor but a guiding light, a brother, and an ideal who has profoundly shaped my journey. His wisdom, humility, and unwavering dedication to principles have been a source of endless learning for me.
Amjad Ali Sahib’s presence exudes positivity, and his words carry the weight of experience and sincerity. He has not only guided me through challenges but has also instilled in me the values of resilience, compassion, and integrity.
I am forever grateful to have him as a part of my life—a true role model who continues to inspire me every day.