ضیاء الدین کالج میں میرا کلاس فیلو تھا۔ بہت معصوم، خوش اخلاق اور زندہ دل لڑکا تھا۔
قارئین! کیا آپ نے وہ کم یاب لوگ دیکھے ہیں، جن کے بارے میں یقین ہوتا ہے کہ وہ کبھی کسی کا برا نہیں چاہیں گے اور نہ وہ کسی کا برا کرسکتے ہیں؟ ضیا بھی انھی جیسا تھا۔
کالج میں اپنے ہاں انجینئرنگ اور میڈیکل وغیرہ کے پیچھے جس دوڑ کا رواج ہے، اُس کے ہوتے ہوئے دوستیاں کرنا اور نبھانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم میں بھی کوئی ایسی گہری دوستی نہیں تھی۔ بس جان پہچان ہی تھی۔
کالج کے سیکڑوں ساتھیوں میں سے پانچ چھے ہی ایسے ہیں، جن کے ساتھ ’’واٹس اَپ‘‘ پر کالج کے بعد بھی ’’ہیلو ہائے‘‘ کا سلسلہ بہ حال رہا اور یونیورسٹی لائف کی گوناگوں مصروفیات کے سبب اُن سے بھی بہت محدود رابطہ رہا۔ ضیا بھی ان میں سے ایک تھا۔
آج جاب سے جڑے دس گروپس کے بیچوں بیچ کئی مہینوں کے بعد کالج کے ایک اور دوست یاور کا میسج آیا، تو مجھے کھولنا پڑا۔ اُس میں ضیا سے متعلق افسوس ناک خبری پڑھی، تو ایک آہ نے جنم لیا۔ کولیگز کے پوچھنے پر خبر سنائی۔ آہ ایک لمحے کے لیے خاموشی رہی۔ اگلے لمحے وہ آہ کارپوریٹ سیکٹر کے شور میں کھوگئی، لیکن کام کے دوران میں ضیا اور اُس جیسے لاکھوں اور نوجوان خیالات کا موضوع بنے رہے۔
اَب جب میں کام سے واپس آگیا ہوں اور اس سب کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، تو خیالات بہت منتشر ہیں۔ اس واقعے سے متعلق بیسیوں باتیں ذہن میں گردش کر ہی ہیں۔
اس سماج، جس کے بارے میں ضیا نے اپنے والد کو آخری اور شاید زندگی کا پہلا خط لکھتے ہوئے کہا: ’’والد صاحب……! مَیں اس سماج میں نہیں جی سکتا، پتا نہیں کیوں؟‘‘ کے بے شمار ایسے سیاہ، موت پرست اور قاتل پہلو ہیں، جن پر بات کیے بغیر ضیا جیسے نوجوانوں کی صورتِ حال نہیں سمجھی جاسکتی۔
ضیا کے ساتھ ’’واٹس اَپ چیٹ‘‘ دیکھا، تو ایک ابتدائی میسج میں وہ اُس گرینڈ محفل میں شرکت کا متمنی ہے، جو پنجاب یونیورسٹی ریڈرز سوسائٹی کے قیام سے بھی قبل منعقد کرنا چاہی تھی اور جس کا مقصد بھی ضیا جیسے حساس، کتاب دوست اور اس سماج کے ساتھ نہ چل سکنے والے اُن طالب علموں کو یک جا کرنا تھا، جو اکثر الگ تھلگ رہتے ہیں اور جن کا ساتھ ساتھ رہنا اُن کے لیے آبِ حیات سے کم نہیں۔ دوسرے میسج میں وہ کہنا چاہتا ہے کہ وہ بھی کتاب دوست طالب علموں کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک سوسائٹی اور ایک ’’واٹس اپ گروپ‘‘ بنانا چاہتا تھا، اور اس سلسلے میں یہ اُمید لگائے بیٹھا تھا کہ مَیں اور ہمارا ایک اور دوست حسنات اس کی مدد کریں گے۔ کیوں کہ ضیا کو لگتا تھا کہ کالج کے دوستوں میں سے ہم دونوں ہی کتب بینی سے منسلک ہیں اور اُس کے بہ قول: ’’باقی خیر خیریت ہے!‘‘
آخری پیغامات میں سے ایک میں وہ میرے ’’واٹس اَپ سٹیٹس‘‘: ’’آپ کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟‘‘ کے جواب میں کَہ رہے ہیں کہ وہ کارل مارکس اور اینگلز کی ’’دی کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ پڑھ رہے ہیں اور آخری دو پیغامات میں، مَیں نے اُن سٹیٹسوں میں اُس کی تصویر اور ساتھ پشتو کے ایک شعر جس کے معنی ہیں، ’’پہلے خود سے محبت کرلو، پھر جہاں سے‘‘ اور دوسرے سٹیٹس میں سبطِ حسن کی کتاب ’’نویدِ فکر‘‘ پر دل کے ’’ری ایکشن‘‘ بھیجے ہیں۔
جو لڑکا سوشلسٹ نظریات سے واقف ہو، شاعری پسند کرتا ہو، کتاب دوست ہو، رقص کرنا جانتا ہو، موسیقی سے محبت کرتا ہو، ایک حساس، خوش اخلاق اور بھلا انسان ہو…… اُس کے لیے ایک ’’موت پرست سماج‘‘ میں رہنا واقعی بہت مشکل ہوتا ہے کہ یہ سماج، ضیا جیسوں کا لائق ہی نہیں۔
مزید پھر کبھی لکھ لیں گے۔ بس اتنا کہون کہ اپنا خیال رکھیں۔ اپنے ارد گرد حساس انسانوں کا اگر بھلا نہیں کرسکتے، تو کم از کم اُنھیں تنگ کرنے سے گریز کریں۔ پتا نہیں وہ کس وجودی بحران سے گزر رہے ہوں۔
اگر آپ خود تنہا محسوس کر رہے ہیں، آپ کو کوئی پریشانی لاحق ہے، معنی اور وجودی سوالات کے جوابات کے متلاشی ہیں، معاشی تفکرات میں گھرے ہوئے ہیں، مستقبل تاریک نظر آرہا ہے، سماج کے ساتھ ہم آہنگی نہیں، تو آپ اکیلے نہیں۔ ہم خیال دوست ڈھونڈ لیں۔ اُن سے ملا کریں۔ گہرے مکالمے کیا کریں اور ایک دوسرے کی ڈھارس بندھاتے رہیں۔ اگر کوئی اور دست یاب نہ ہو، تو مَیں دست یاب ہوں۔ ملاقات کے لیے نہ سہی، کال کے لیے ہی سہی۔ کال کے لیے بھی نہ سہی، وائس میسج کے لیے ہی سہی۔
نوٹ:۔ جنھیں نہیں پتا، اُن کے لیے عرض ہے کہ ضیا، جو کہ قانون کا طالبِ علم تھا، نے ایک نوٹ چھوڑ کر دنیا کو خیرباد کہا ہے کہ وہ مزید اس سماج میں نہیں جی سکتا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
