لوگ تو آج کے جدید دور میں نہیں پڑھتے، تو 1969ء میں کتنے لوگ پڑھے لکھے ہوں گے اور اعلا تعلیم…… وہ تو گویا خواب تھی۔ اخبار پڑھ لینا ہی تعلیم یافتہ ہونے کی بڑی نشانی تھی۔
مینگورہ اور اصل مینگورہ باچا صاحب چم میں مسافر حاجی صاحب کے بیٹے غلام یوسف صرف پڑھے لکھے نہیں تھے، بل کہ اعلا تعلیم یافتہ تھے۔ عام افسر نہیں تھے، بل کہ ایک وقت میں پورے صوبے کی صحت کے سب سے بڑے افسرتھے۔
مینگورہ شہر میں اصلی اعظم کے پیچھے ایک اور اعظم مارکیٹ ہے۔ یہ ایک طرح سے امان اللہ خان صاحب کے ڈیرے کے آگے میدان اور مسجد کی دیوار تھی۔ چشمِ تصور میں وہ سارا منظر اب بھی تیرتا رہتا ہے۔ امان اللہ خان، لمبی گاڑی، خوب صورت سیڑھیاں، کھلا میدان…… اب وہاں ایسا کچھ نہیں ہے، بس ہر طرف شور، سماعت خراش آوازیں اور آدمی کے سر ہی سر ہیں۔ دُکانیں ہر شخص کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہے اور خریدار غول در غول ہیں۔
اعظم مارکیٹ میں عزیز ڈاکٹر صاحب کا پرانا کلینک بعد میں ڈاکٹر غلام یوسف صاحب کا کلینک بنا۔ ڈاکٹر صاحب، جسے ’’خندادا‘‘ کَہ کر بلایا جاتا، بڑے افسر رہے، مگر اتنے رحم دل، اتنے نفیس، اتنے خدا ترس اور اتنے ایمان دار تھے کہ یقین ہی نہیں ہوتا۔
سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد پورے صوبے کے ہر محکمے میں بیش تر سوات کے لوگ ہی افسر تھے۔ کیوں کہ سوات کے بیش تر لوگ تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے پورا صوبہ سنبھالا۔
ڈاکٹر غلام یوسف صاحب، سیدو ہسپتال کے بعد ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر بنے۔ پھر ڈائریکٹر ہیلتھ بنے۔ پوری زندگی سوات سے باہر گزاری؛ جنوبی اضلاع، ہزارہ ڈویژن، وسطی اضلاع۔ چھٹیوں میں آتے، تو مریض چھٹی منانے نہیں دیتے۔ (مرحوم) دنگ قیوم بابو صاحب اُن کے ساتھ ہوتے۔
غلام غوث صاحب کی دُکان کے ساتھ والی گلی میں بازار میں پیچھے مڑ کر نوجوان ڈاکٹر غلام یوسف نے کلینک بنایا۔ ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر عزیز احمد کلینک (واقع اعظم مارکیٹ، گوشت مارکیٹ) میں منتقل ہوئے۔ ڈاکٹر عزیز صاحب اُسے چھوڑ کر انگلستان چلے گئے۔
ڈاکٹر غلام یوسف صاحب نے اس کلینک کو بنایا اور تادمِ آخر اس میں رہے۔
شاید ہی کسی نے ایسا ایمان دار، شریف، مہذب، ملن سار، خوش گفتار ڈاکٹر دیکھا ہو۔ کسی ایک ڈاکٹر میں ذکر شدہ تمام خوبیاں کم از کم مَیں نے کسی اور میں نہیں دیکھیں۔ مینگورہ شہر کے لوگ ذرا سا کریدنا شروع کردیں، تو یہ شہر ہیروں سے بھرا پڑا ہے۔
ہم کو زلزلوں، طالبان، آپریشن اور سیلاب نے بہت مایوس کیا ہے، مگر شایدہم بھول رہے ہیں کہ ہم تاریخی حوالے سے اتنے بھی گئے گزرے نہیں۔ ہم اپنی تاریخ پر بہ جا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔
آمدم برسرِ مطلب، ڈاکٹر غلام یوسف صاحب فِٹ شخصیت کے مالک تھے۔ وقت اور عمر نے ان کو کم زور ضرور کیا، مگر اثر صرف جسم پر رہا۔ اُن کا عزم، خلوص، پیار اور اپنائیت دلانے کا احساس تادمِ آخر برقرار رہا۔ گو کہ ڈاکٹر صاحب کا خاندان شریف اور مخلص مشہور ہے، مگر ڈاکٹر غلام یوسف نے طاقت اور اختیارات کی بھرپور موجودگی میں بھی گھر کی تربیت سے منھ نہیں پھیرا۔ پیسے اور دباو کے آگے سرنگو نہیں ہوئے۔
اہلِ سوات بالعموم اور اہلِ مینگورہ شہر بالخصوص ڈاکٹر صاحب کے شکر گزار ہیں، جنھوں نے نہ صرف ان کی خدمت کی، بل کہ انھیں لائقِ فخر بنایا۔
19 جنوری 2022ء کو ڈاکٹر صاحب کا انتقال کرگئے۔اللہ ان کے درجات بلندفرمائے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔