کبھی خواب نہ دیکھنا (سینتیس ویں قسط)

Blogger Riaz Masood

پشاور سے پہلی آڈٹ ٹیم 1970ء میں آئی اور ہمارے دفتر میں اپنا کام شروع کر دیا۔ مجھے ایکس ای این عبدالرحیم خان نے آڈٹ ٹیم کے ساتھ کام کے لیے کہا۔ انھوں نے آڈٹ کا آغاز ریاست کے آخری سال سے شروع کرنا چاہا۔ مَیں نے یہ دلیل دی کہ ان کے پاس والی صاحب کے دستخط سے کیے گئے اخراجات کا آڈٹ کرنے کا اختیار نہیں۔ ہمارے درمیان چند سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ خیر! دن کے اختتام پر انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ ڈی سی سوات کے اخراجات تک خود کو محدود رکھیں، جو کہ والی کے اختیارات رکھتا ہے۔ سابق ریاستی دور سے کچھ جاری منصوبے تھے، جیسے کہ پاچا کلی سے ڈگر تک سڑک کی بلیک ٹاپنگ، افسر آباد میں سٹیٹ گیسٹ ہاؤس (موجودہ کمشنر ہاؤس) اور ڈی سی کی طرف سے منظور شدہ ایک سکیم، یعنی پٹن، انڈس کوہستان میں سول ہسپتال کی تعمیر۔
دسمبر 1971ء میں سوات کو محکمہ بی اینڈ آر کے تین سب ڈویژنوں میں تقسیم کیا گیا۔ یہ سیدو، خوازہ خیلہ اور ڈگر سب ڈویژن تھے۔ بہ طور اوورسیر، میں اور فضل معبود ڈگر کے سب ڈویژنل آفیسر خورشید علی (آف غالیگے) کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ ہمیں دو ٹرک اور ایک پک اَپ دی گئی۔ یہ گاڑیاں سابق ریاستی بیڑے سے وراثت میں ملی تھیں۔ ڈرائیوروں کے نام میاندمی استاد، حبیب اللہ استاد اور چندن استاد تھے۔ ہمیں ان ڈرائیوروں کی رہایش/ بورڈنگ کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ہمارے لیے کوئی رہایش گاہ نہیں تھی، صرف سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کی ایک عمارت تھی، جو پانچ کمروں پر مشتمل تھی۔ ہم نے اپنا دفتر تین کمروں میں لگایا اور دو کو بیڈ روم/ کچن کے طور پر استعمال کیا۔ ایس ڈی اُو کو 1930ء کے اوائل میں تعمیر ہونے والے خوب صورت ریسٹ ہاؤس ڈگر میں ایک کمرہ دیا گیا۔
یہ دسمبر 1971ء کی ایک سرد رات تھی۔ تمام عملہ ڈگر میں مجھے اکیلا چھوڑ کر سیدو شریف واپس گیا تھا۔ باہر تیز بارش ہو رہی تھی۔ رات بہت اندھیری اور خوف ناک تھی۔ مَیں پورے ریسٹ ہاؤس میں تنہا تھا۔ قریب ترین گھر اسسٹنٹ کمشنر بونیر کی سرکاری رہایش گاہ تھا۔ یہ پہلے سابق ریاستی دور میں حاکم بونیر کا گھر تھا۔ پورے سب ڈویژن میں بجلی نہیں تھی۔ مٹی کے تیل کا ایک چراغ گھپ اندھیرے سے لڑ رہا تھا۔ مَیں تنہائی کو اپنی ہڈیوں کی گہرائی تک محسوس کر رہا تھا۔ ریسٹ ہاؤس کی اونچی چھت سفید رنگ کی تھی اور چھت پر لگے سی جی آئی کی چادریں تیز بارش کی وجہ سے شور کر رہی تھیں۔ یہ وہ عبرت ناک تاریخ تھی، 16 دسمبر 1971ء۔
اپنی توجہ بٹانے کی خاطر، مَیں نے ٹرانزسٹر کو آن کیا۔ آل انڈیا ریڈیو سے خبریں چل رہی تھیں۔ لوگ ریڈیو پاکستان کی نشریات پر اَب یقین نہیں کرتے تھے۔ اچانک، خاتون نیوز ریڈر نے اعلان کیا: ’’ایک بڑی خبر ہے، ڈھاکہ نے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔‘‘ یہ خبر سنتے ہی مَیں اپنے حواس تقریباً کھو بیٹھا اور بے اختیار رونے لگا۔ مَیں نے اپنی ہچکیوں پر قابو پانے کی پوری کوشش کی، لیکن رُک نہ سکیں۔ وہ رات ایک نہ ختم ہونے والے ڈراؤنے خواب کی طرح گزری۔
صبح دو نوکروں نے، جن کا تعلق ڈگر گاؤں سے تھا، دفتر میں آگ جلا کر میرے لیے ناشتا تیار کیا۔ میرا ایس ڈی اُو اور دوسرا عملہ صبح 9 بجے پہنچ گیا۔ ہمارے پاس دو مقامی کلرک بھی تھے۔ ایک کا تعلق ایلئی سے تھا اور دوسرے کا تعلق نویکلی بونیر سے تھا۔ سابق ریاستی ’’صوبہ دار میجر روڈز‘‘ میاں مصطفی پاچا آف کڑاکڑ بھی مکمل یونیفارم پہن کر آگئے۔ بونیر کے روڈ عملے کو ابھی تک کسی محکمے میں جذب یا ختم نہیں کیا گیا تھا۔ چناں چہ دیگر عملہ بھی اپنے محکمہ ’’بی اینڈ آر‘‘ کے نئے افسران سے ملاقات کے لیے موجود تھا۔ ہمارے دفتر میں ایک جونیئر کلرک تھا، جسے ڈگر سب ڈویژن میں تعینات کیا گیا تھا۔ وہ ایک با صلاحیت شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک خوب صورت نوجوان اور توانا لڑکا تھا۔ اُس نے تقریباً پورے شو کو اکیلے ہی چلایا۔ اس کا نام فضلِ مبعود خان تھا۔ اس کا تعلق قمبر سوات سے تھا۔ یوں ہمارے پاس ایک ہی نام کے دو سٹاف ممبر تھے۔ سیدو کے فضلِ مبعود بھی میری طرح اوورسیئر تھے، لیکن اصل ڈرائیونگ سیٹ پر قمبر کا لڑکا تھا۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے