ہم روزنامہ آزادی کے انھی صفحات پر بار ہا تحریک انصاف کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ حقائق کو مد نظر رکھے اور ملک کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے کہ جو اس کا انتخابی منشور بھی تھا اور نعرہ بھی۔
کسی بھی ملک کا نظام سیاسی طاقت کے بغیر نہیں بدلتا اور سیاست حقائق کو تسلیم کرنے کا نام ہے…… لیکن یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ تحریکِ انصاف کا بیانیہ اس کے ووٹر کے نزدیک ایک آئیڈل سیاست ہے، جب کہ ملک کے دانش وروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ تحریکِ انصاف کی تمام تر حکمت عملی صرف اور صرف عمران خان کو وزیرِاعظم بنوانے کی ہے اور خان صاحب اپنی ذات سے اوپر سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اس بات کا ثبوت گذشتہ انتخابات کے بعد تحریکِ انصاف کے فیصلوں سے واضح نظر آتا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ جس طرح سنہ 1988ء سے لے کر 2013ء تک پیپلز پارٹی اور پھر 2018ء کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ زیادتی کی گئی، اُن سب زیادتیوں کو ملا بھی دیا جائے، تب بھی 2024ء کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ جو زیادتی ہوئی، بے شک اُن کو ہرانے اور حکومت سے باہر رکھنے کے لیے وہ پھر بھی زیادہ ہے…… لیکن یہ بات تحریکِ انصاف کو بھی معلوم ہے کہ شاید اُن کے خلاف یہ کام سیاسی طاقتوں نے نہیں کیا، نہ وہ ایسا کرسکتی تھیں۔ اس میں بے شک تحریکِ انصاف کی چند حماقتیں بھی شاملِ حال تھیں۔ لیکن بہ ہرحال ریاست کی جانب سے تحریکِ انصاف کے خلاف مکمل جانب داری کا مظاہرہ کیا گیا۔ خیر، جو ہوا سو ہوا…… لیکن اس کے بعد تحریکِ انصاف کے پاس بہت بہتر موقع تھا کہ وہ سیاسی قوتوں سے مل کر آئین و قوانین کی مضبوطی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے بہتر کردار ادا کر سکتی تھی…… لیکن تحریکِ انصاف کے قائد اپنے مفاد کے علاوہ کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ اسی وجہ سے اُن کے بارے میں یہ عمومی تاثر ہے کہ آج وہ جو حرکات اپنی جماعت سے کروا رہے ہیں، ان کا مقصد نہ سیاسی قوتوں کی مضبوطی ہے، نہ آئینی کی بالادستی، نہ پارلیمنٹ کی آزادی اور نہ ملکی نظام کی بہتری ہی ہے، بل کہ اُن کا مقصد صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کو اُٹھا کر اُن کو گود میں بٹھالے۔
مجھے معلوم ہے کہ عمران خان صاحب پر تنقید کرنا کسی بھی ذی ہوش کے لیے مشکل ہے، کیوں کہ تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا لاٹ اس کو دشمن سمجھ کر اس پر ٹوٹ پڑتی ہے…… لیکن ہم انصافین کو یہ دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ وہ زیادہ ماضی میں نہ جائیں، بس گذشتہ انتخابات کے بعد کی صورتِ حال اور اس پر خان صاحب کے فیصلوں کے نتائج پر غورو فکر کریں۔ ان احمقانہ اور صرف عمران خان کی ذات پر فوکس رکھ کر کیے گئے فیصلوں نے کیا اثرات ڈالے؟ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے یا بے شک تحریکِ انصاف کی سیاست کے حوالے سے۔ اگر آپ مکمل غیر جانب داری سے اس کا تجزیہ کریں، تو تحریکِ انصاف کے فیصلوں نے ملک کی سیاست اور آئین کی بالادستی کو تو نقصان پہنچایا ہی ہے، لیکن اس نے تحریکِ انصاف کو شدید ترین نقصان بھی پہنچایا ہے۔ تحریکِ انصاف کی سیاست کو تمام تر عوامی مقبولیت کے باجود تباہ و برباد کر دیا گیا ہے۔ اب تحریکِ انصاف کے کارکن کھلے ذہن کے ساتھ جائزہ لیں کہ انتخابات کے بعد، بل کہ نتائج کے بعد ان کے پاس تین آپشن تھے۔ انھوں نے تیسرا آپشن اختیار کیا، جو خلافِ حقائق تھا اور جس نے ان کو ہر لحاظ سے شدید نقصان پہنچایا۔ اس سے پہلے کہ ہم اُس تیسری ترجیح پر بات کریں، اول ہم پہلے دو آپشنز پر غور کرتے ہیں۔
پہلا آپشن اُن کے پاس یہ تھا کہ وہ سب سے بڑی پارلیمانی قوت تھے۔ حکومت کی تشکیل ان کا حق تھا۔ سو وہ حکومت بنانے کی کوشش کرتے اور یقینا بنا بھی لیتے۔ کیوں کہ جس طرح آج یہ مولانا کے در پرسر بہ سجود ہیں، تب اس سے کم ترلیول سے مولانا کی مدد لی جاسکتی تھی، جب کہ دوسری دو بڑی جماعتوں میں سے تو پیپلز پارٹی نے بہت کھل کر ان کو عندیہ دیا تھا کہ وہ ان کی غیر مشروط حمایت کریں گے۔ اب اس کا کیا نتیجہ ہوتا؟ تحریکِ انصاف کے پاس مرکزی خیبر پختون خواہ اور پنجاب کی حکومت بہ راہِ راست ہوتی۔ کشمیر اور گلگت بلستان میں ان کی اتحادی حکومت ہوتی، جب کہ سندھ اور بلوچستان میں ان کی حمایتی حکومتیں ہوتیں۔ یہ بہت آسانی سے تمام کیسوں کو فکس اَپ کرلیتے۔ خان صاحب کو باہر نکال لیتے اور عوامی دباو کے ساتھ اپنی اکثر شرائط تسلیم کروا لیتے۔ اس کے بعد چاہتے، تو ن لیگ سے مل کر آئین و قانون میں مناسب تبدیلی کروالیتے۔ چاہتے تو اسمبلیوں کو توڑ کر نئے انتخابات کروا لیتے۔
دوسرا ان کے پاس ایک بہتر آپشن یہ تھا کہ یہ میڈیا کے ذریعے اعلان کر دیتے کہ چوں کہ انتخابات کو چوری کیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ اس وجہ سے وہ اکثریتی جماعت ہونے کے باجود بھی حکومت نہیں بنائیں گے…… لیکن وہ بننے والی حکومت جو کہ ظاہر ہے ن لیگ کی تھی کہ ساتھ بغیر کسی شرط کے ہر لیول اور ہر سطح پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کہ جو کم از کم آزاد الیکشن کمیشن، غیر جانب دارانہ انتخابات، آزاد عدلیہ اور خود مختار پارلیمنٹ کی حد تک ان سے متفق ہے اور تھی…… پھر وہ سیاسی انتقام پر یقین بھی نہیں رکھتے اور صدر اُن کا ہوتا کو بہ طور کوآرڈی نیٹر منوا سکتی تھی۔ سو پی پی پی، بل کہ صدر کی سرپرستی میں اپنے مطالبات سامنے رکھتی، تو کوئی وجہ نہ تھی کہ ن لیگ سیاسی قوتوں کو نظر انداز کرکے صرف اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کرتی، جب کہ آپ آئین میں تمام ضروری بہتری پیدا کرواتے، تو خود بہ خود آپ کے عدالتی معاملات صحیح ہوجاتے۔ اس کے بعد آپ عوامی طاقت کے زور پر نئے انتخابات کا مطالبہ کرسکتے تھے، مگر بدقسمتی سے آپ نے یہ دونوں آپشن استعمال نہیں کیے اور تیسرے آپشن پر گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ تیسرا آپشن بھی ایک تصواراتی صورتِ حال میں غلط نہ تھا، لیکن پاکستانی سیاست کے زمینی حقائق کچھ اور ہیں۔ اس آپشن کو تباہ، بل کہ اپنے خلاف آپ نے خود اپنی حماقت سے کیا۔ اول تو آپ حالات کا صحیح تجزیہ کر سکے اور نہ سمجھ ہی سکے۔ آپ اپنے ووٹر کے مزاج کا اندازہ ہی نہ کرسکے اور بغیر سوچے سمجھے آپ نے 100 فی صد عوامی حمایت پر تکیہ کیا اور آتشِ ریاست میں کود پڑے۔ حالاں کہ اگر آپ سنہ 70ء کی دہائی کے آخری سالوں کا ہی جائزہ لے لیتے، تو آپ کو معلوم ہوجاتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت آپ سے دگنی زیادہ تھی، بل کہ پورے ملک میں تھی۔ ان کے پاس جیالوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی، جو سیاست کے تقاضے بھی سمجھتے تھے اور ہر قسم کی، حتی کہ جان کی قربانی تک دینے کے لیے تیار تھے۔
پھر اُنھوں نے کوئی غیر سیاسی حماقت نہ کی تھی، لیکن وہ کام یاب نہ ہوسکے اور ریاست نے ان کے مقبول قائد کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا اور سالوں ان کے لیے سختیاں جاری رہیں۔
آپ کا سیاسی کیڈر اور ورکر اول تو ملک بھر میں ہے ہی نہیں۔ دوم آپ کا ورکر سوشل میڈیا کی حد تک تو متحرک ہے، لیکن میدان میں آکر ریاستی طاقت کے سامنے کھڑا ہونا اس کے بس کی بات نہیں، نہ اس کے پاس سیاسی دانش اور حکمت ہی ہے، بل کہ وہ 100 فی صد جذباتی رویہ رکھتا ہے اور آپ اس کو احمقانہ حکامات کا اسیر بنا کر وہ کام کروانا چاہتے ہیں کہ جو مکمل جمہوری انسانی حقوق اور مہذب معاشروں میں بھی ناقابلِ برداشت ہے۔
یعنی ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 70ء کی دہائی کے آخر اور 80ء کی دہائی کے شروع میں پیپلز پارٹی کا معاملہ آپ کے مقابل 100 فی صد اخلاقی طور پر صحیح تھا۔ پھر ان کا طریقۂ کار 100 فی صد سیاسی رہا۔ ان پر مظالم کا عشر عشیر بھی آپ نے نہیں بھگتا، لیکن انھوں نے کبھی نہ تو ریاستی اداروں پر بہ راہِ راست چڑھائی کی، نہ اس لیول پر تنقید ہی کی۔ ان کی تنقید کا محور صرف ضیاء الحق کا ٹولہ تھا، بل کہ مجھے حیرت ہے کہ وہ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہتے رہے، لیکن انھوں عدالت میں بہ شمول ذوالفقار علی بھٹو خود ہمیشہ ’’مائی لارڈ‘‘ اور ’’یور آنر‘‘ ہی کہا۔ وہ نظام پر تنقید کرتے رہے، لیکن آپ نے غیر ضروری طور پر جی ایچ کیو پر حملہ کر دیا۔ سو نتائج تو اب بھگتنا ہوں گے…… لیکن ہماری ایک پھوٹوہاری کی مثال ہے کہ گرتے ہوئے بیروں ( بیر کی جمع کہ جو بیری کے درخت کے ساتھ لگتے ہیں، ایک چھوٹا سا پھل) کا کچھ نہیں ہوتا، آپ ان کو دوبارہ چن کر صاف کرسکتے ہیں۔
سو تحریکِ انصاف والوں کے پاس اب بھی بہت آپشن ہیں اور وہ اگر غیر حقیقی حماقتوں سے پرہیز کریں، تو وہ اَب بھی نہ صرف ملک و قوم کی بہتر خدمت کرسکتے ہیں، آئین و قانون کی بالادستی قائم کرسکتے ہیں، بل کہ اپنی جماعت اور سیاست کو صحیح سمت لاکر کام یاب ہوسکتے ہیں۔ وہ ماضی کی حرکات کی توجیح دینا ختم کر دیں اور آیندہ کا لائحۂ عمل اصول کی بنیاد پر بنائیں۔ یعنی ہم ذاتی حوالے سے تمام باتیں ختم کرتے ہیں اور حکومت کیسے بھی بنی، جیسی بھی ہے، لیکن عملی حقیقت یہی ہے کہ حکومت ہے۔ سو ہم حکومت سے نظام کی درستی، آئین کی پاس داری اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر بات کریں گے۔ ان کے سامنے تمام اصولی مطالبات رکھیں گے، تو پھر یہ ممکن ہی نہیں کہ ان کے مطالبات کو نظر انداز کیا جائے، بل کہ اس بات کا بڑی حد تک امکان ہے کہ تمام سیاسی قوتیں اس نکتہ پر متحد ہو جائیں کہ اسٹیبلشمنٹ خود ہی پیچھے جانے پر مجبور ہوجائے۔
لیکن اصل مسئلہ پھر وہی کہ آپ کی اس تمام حکمت عملی کا مقصد کیا ہے؟ اس میں اصولی و اخلاقی ضابطوں کی کتنی اہمیت ہے، لیکن اگر مقصد ذاتی فوائد، طاقت کی ہوس اور کرسی کی تمنا ہے، تو پھر آپ جو مرضی کریں، یہ کوشش، بل کہ سازش کام یاب ہو ہی نہیں سکتی…… بل کہ ایسی کوئی کوشش اسٹیبلشمنٹ کو مزید مضبوط کرے گی اور سیاسی طاقتیں مزید پستی کی طرف جائیں گی۔
اب عملی صورتِ حال یہ ہے کہ ان تمام حالات میں مرکزی اہمیت اور کردار تو بس تحریکِ انصاف کا ہے۔ دوسری سیاسی قوتیں بہ شمول حکم ران جماعت یعنی مسلم لیگ ن تک بھی ایک کنارے پر ہیں۔ ان کی کوئی خاص اہمیت ہے ہی نہیں۔ اس لیے ہم تحریکِ انصاف کو یہی مشورہ دیں گے کہ آپ نہ انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ امریکہ پر تکیہ ہی آپ کے لیے فائدہ مند ہوگا۔ صحیح طریقہ بس یہی ہے کہ آپ اصول کی بات کریں اور حقائق کو سمجھیں اور حقیقت یہی ہے کہ آپ کو سیاسی حقیقتوں کو تسلیم کرکے سیاسی طاقتوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی معاملہ حل کرنا پڑے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
