(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
بجلی کی ترسیلی لائن کو سوات تک بڑھانے سے پہلے، سیدو شریف کے گھروں میں لائٹ دست یاب نہیں تھی۔ یہاں تک کہ سرکاری رہایش گاہیں بھی بجلی سے محروم تھیں۔ تاہم، پونے روپے فی لیٹر کے حساب سے کیروسین کا تیل مل جاتا تھا۔ گھر، مساجد اور دکانوں میں لالٹین اور روایتی چراغ استعمال ہوتے تھے۔ ہوٹل اکثر پیٹرو میکس لیمپ روشن کراتے تھے، جو رات کو دن میں بدل دیتے تھے۔ سڑکوں پر روشنی یا سائیڈ لیمپ کا کوئی تصور نہیں تھا۔
البتہ شاہی محل، سیدو بابا مسجد، دیگر شاہی رہایش گاہوں اور دو ہسپتالوں کو عقبہ (تب بڑینگل) کے قریب کیروسین سے چلنے والے پاور ہاؤس سے بجلی فراہم کی گئی تھی۔ ہم افسر آباد سے سیدو شریف کے تاریک گاؤں کی طرف دیکھتے تھے جہاں صرف عقبہ وغیرہ میں بلب چمک رہے ہوتے۔
مجھے اصل سال یاد نہیں، لیکن یہ والی صاحب کے دورِ حکومت کے ابتدائی سالوں کا واقعہ ہے کہ جبن کے ہائیڈرولک پاؤر ہاؤس سے بجلی کی ترسیلی لائن کو پھیلانے کا کام شروع ہوا۔ کہا جاتا تھا کہ وہاں مصنوعی آبشاروں سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ہم بچے باتیں کرتے کہ بلب کو نہر کے کنارے پر کس طریقے سے پھینکا جائے کہ وہ ٹوٹے نہ۔ کچھ بچے بحث کرتے کہ نہر کے کنارے کی گھاس کافی محفوظ اور نرم ہوتی ہے۔ شیشے کے بلب کو گھاس پر پھینکنے سے بلب کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
خیر، جب بجلی کی سہولت آئی، تو ریاستی حکومت نے مینگورہ اور سیدو شریف کے درمیانی سڑک کے کنارے لائٹس لگائیں۔ جس شام بجلی کے بلب روشن ہوئے، وہ شام ہمارے لیے ایک جشن کی رات بن گئی اور ہم نے اندھیرے کے خوف کے بغیر سڑک پر مٹر گشتی کا لطف اُٹھایا۔
افسر آباد میں تمام گھروں کو میٹر وغیرہ سے آزاد مفت کنکشن فراہم کیے گئے۔ سوائے ہمارے گھر کے، کیوں کہ ہم وائرنگ کا خرچہ نہیں اٹھا سکتے تھے، جو ہر گھر کے لیے 50 روپے تھی اور ہمارے پاس 50 روپے بھی میسر نہ تھے۔ پہلے مہینے کے آخر میں، لوگوں کو بِل ملے، جو ایک روپے اور دو روپے تک تھے۔
ہمیں 1961ء میں اس سہولت سے اُس وقت فائدہ اٹھانے کا موقع ملا، جب کیپٹن عبدالحنان ریٹائر ہوگئے اور ہم والی صاحب کے حکم سے اس کے بڑے گھر میں منتقل ہوئے۔
سب سے زیادہ سجائے گئے نجی مقامات ہوٹل اور حجام کی دکانیں (باربر شاپس) تھیں۔ ان باربر شاپس میں آئینے کے اوپر 4 فٹ لمبے فلوروسینٹ ٹیوبیں لگائی گئیں، تاکہ گاہک رات گئے شیو یا ہیئر کٹ کا لطف اُٹھاسکیں۔ ایک یا دو سال بعد، سیدو شریف کی تنگ گلیوں میں بھی سٹریٹ لائٹس فراہم کی گئیں۔ 500 واٹ کے مرکری بلب سڑک کے کنارے سیدو سے مینگورہ کے درمیان لگائے گئے۔ ان پولز کے لیے بلب، ریاستی پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ نے فراہم کیے، جہاں میری ملازمت تھی۔
تو یہ ہے بجلی کی روشنی میں نہائے جانے والے سیدو شریف کی کہانی، جو ریاست کا صدر مقام تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
![Doctor Aizaz Khalid](https://lafzuna.com/wp-content/uploads/2025/01/Dr-Aizaz-Khalid-Podcast-01.jpg)