سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کے سربراہ کی ریٹائرمنٹ امور بی/ آر ڈویژن کے قیام کے بعد، ہمارے پہلے ایگزیکٹو انجینئر جناب عبدالرحیم خان نے چارج سنبھالا۔ سیدو شریف کو نو تشکیل شدہ ملاکنڈ ڈویژن کا ڈویژنل ہیڈ کوارٹر بھی قرار دیا گیا تھا۔ کیوں کہ سوات کے عظیم حکم ران کی طرف سے تعمیر کیے گئے دفاتر اور رہایش گاہیں دست یاب تھیں۔ چناں چہ پہلے کمشنر جنھوں نے عہدہ سنبھالا، وہ سید منیر حسین تھے۔ ان کی مرتبے کے مطابق رہایش دست یاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ سوات ہوٹل کے ایک سویٹ میں ٹھہرے۔ تب گیسٹ ہاؤس، جو اَب کمشنر ہاؤس ہے، زیرِ تعمیر تھا۔ اسی طرح ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس اور سپرنٹنڈنگ انجینئر بی اینڈ آر سرکل علی احمد جان نے اپنے اپنے دفاتر کا چارج سنبھال لیا۔
انضمام کے وقت ریاستی خزانے میں 15.54 ملین کی نقد رقم تھی، جسے ٹریژری آفیسر سلطان محمد خان نے ڈپٹی کمشنر کے حوالے کر دیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت ڈپٹی کمشنر کو سوات کے حکم ران کے تمام اختیارات ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے دے دیے گئے تھے۔ مزید برآں: سابق ریاست کے دو صنعتوں میں حصص تھے، پریمئر شوگر ملز مردان اور ’’جانانہ دی مالوچو ملز‘‘ کوہاٹ۔ وہ شیئرز بھی پاکستانی حکام کو منتقل کر دیے گئے۔ یاد رہے کہ یہ حصص ریاست کی ملکیت تھے اور ریاستی بجٹ میں اس کی آمدنی ہر سال درج کی جاتی تھی۔
تبدیلی ایک کاٹ کھانے والی طاقت کے ساتھ آئی۔ بہت سے لوگوں کی توقعات چکنا چور ہوگئیں۔ بیوروکریسی کو اتنے لامحدود اختیارات پہلے کبھی نہیں ملے۔ احکامات کے مطابق، ریاست کی تحلیل کے بعد، صرف ڈپٹی کمشنر کو سابقہ حکم ران کے لامحدود اختیارات استعمال کرنے کا اختیار تھا، لیکن ہر ’’ایرا غیرا نتھو خیرا‘‘ جو باہر سے اس معدوم ریاست میں آیا، خود کو والی سمجھنے لگا۔ انھوں نے استحقاق کا خیال کیے بغیر ریاستی رہایش گاہوں پر قبضہ کر لیا۔ اور تو اور، کالج کالونی کو بھی نہ بخشا گیا۔ سول انتظامیہ کے اعلا افسران نے کالج کے تدریسی عملے کے لیے مختص بنگلوں پر بھی قبضہ کرلیا۔
’’جمہوریت‘‘ کا پہلا ذائقہ جو ہم نے محسوس کیا، وہ فرنٹیئر کانسٹیبلری کی طرف سے زمرد کان میں کی گئی فائرنگ کا سانحہ تھا، جس میں نامعلوم تعداد میں لوگ مارے گئے۔ اگلی صبح لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوئے اور احتجاج کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر آفس کی طرف مارچ کیا۔ کچھ سابق ریاستی ملازمین بھی احتجاج میں شامل تھے۔ انٹیلی جنس ایجنسیاں ایسے اہل کاروں کے نام نوٹ کر رہی تھیں۔ نتیجتاً اس ناخوش گوار واقعے کی وجوہات اور ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک انکوائری کمیشن قائم کیا گیا۔
ڈپٹی کمشنر نے کمیشن کے سامنے موقف اختیار کیا کہ وہ سابق حکم ران کے اختیارات رکھتے ہیں، جنھیں کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ دریں اثنا، احتجاج کرنے والے ملازمین کو ایجنسیوں نے اُٹھایا اور اُس وقت کے صوبہ سرحد کی مختلف جیلوں میں بند کرلیا گیا۔ کافی ٹارچر کے بعد، ایک حلف نامے پر دستخط کے بعد انھیں دوبارہ اپنے عہدوں پر بہ حال کر دیا گیا۔ اس حلف نامے میں ان سے یہ یقین دہانی لے لی گئی کہ وہ آیندہ کسی حکومت مخالف سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوں گے۔
بہ ہر حال نئے سسٹم نے کام کرنا شروع کر دیا۔ مجھے ایک بار پھر ایک دور دراز علاقے میں تعینات کیا گیا…… یعنی بونیر جو اُس وقت ضلع سوات کا ایک سب ڈویژن تھا۔ اُس وقت میرا کام سابق ریاستی عمارتوں کی تفصیلات جمع کرنا اور ان کی محکمہ جاتی لحاظ سے درجہ بندی کرنا تھا، جیسے کہ تعلیم، صحت، پولیس، سول انتظامیہ، ریسٹ ہاؤسز وغیرہ۔ ہمیں البتہ ایک رعایت یہ دی گئی کہ ہمیں بنگلہ نمبر A.B.2 افسر آباد سے بے دخل نہیں کیا گیا۔ اگرچہ میرے والد ریٹائرڈ ہوچکے تھے، لیکن یہ بنگلہ 1981ء تک ہمارے زیرِ استعمال رہا۔ ہمارے ایک ایکس ای این کے خلاف ہونے کے بعد ہم نے یہ بنگلہ خالی کر دیا اور اپنے گاؤں ابوہا شفٹ ہوگئے۔ مَیں اب بھی اُس آدمی کو بددعائیں دیتا ہوں، جہاں بھی وہ اب ہے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔