٭ پس منظر:۔ اَخوند صاحب کی وفات ( 1877-78ء) کے بعد، سوات میں مختلف دعوے داروں کے درمیان اقتدار کے حصول کے لیے کئی سالوں تک اندرونی جھگڑے اور سازشیں جاری رہیں۔ (Hay, The Yousafzai State of Swat, 513)
برطانوی حکومت کے لیے بڑے خطرات میں امیر افغانستان (امیر عبدالرحمان) کا سوات پر دعوا اور سوویت یونین کے ممکنہ حملے شامل تھے۔ کیوں کہ سوات اس کے قریب تھا۔ نتیجتاً، برطانوی حکومت نے سوات کے اندرونی معاملات میں بہ راہِ راست مداخلت شروع کی۔
1893ء کے ڈیورنڈ لائن معاہدے کی شق 3 کے تحت، افغانستان کو سوات، باجوڑ اور چترال کے معاملات میں مداخلت سے روکا گیا۔ 1895ء میں، برطانوی حکومت نے ان علاقوں پر اپنے قبضے کو جائز قرار دیتے ہوئے ملاکنڈ اور چکدرہ میں چھاؤنیاں قائم کیں اور زیریں سوات سے گزر کر چترال کی طرف پیش قدمی کی۔ سوات، جو 1895ء تک کسی یورپی کے لیے ناقابلِ رسائی تھا اور اپنی خوب صورتی کی وجہ سے مشہور تھا، برطانوی حکم رانوں کے لیے کھل گیا۔ (Sultan-i-Rome, Swat State, 46)
یہ آزادی اور خود مختاری کسی مرکزی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں تھی، بل کہ علاقے میں پائی جانے والی قبائلی بے نظمی اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف اجتماعی مزاحمت کا نتیجہ تھی۔ (Paine, The Stamp of Swat, 330)
٭ واقعات:۔ برطانوی حکام نے کئی سالوں کی دشمنی کے بعد سوات کے مقامی لوگوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرلیے۔ انھوں نے پایا کہ وہ آزادانہ طور پر قبائلی لوگوں کے درمیان گھوم سکتے ہیں اور انھیں تنازعات حل کرنے کے لیے بھی مدعو کیا جاتا۔ (Edward, Mad Mulla and Englishmen, 1989)
1897ء کی گرمیوں میں، جب برطانیہ، ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی منا رہا تھا، اچانک پشتون قبائلی علاقوں میں برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت پھوٹ پڑی، جو عام طور پر ’’قبائلی بغاوت‘‘ کہلاتی ہے۔ سوات میں، برطانوی دعوے کے باوجود کہ وہ سواتیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں، سرتور فقیر نے، اپنی شدت پسندی اور برطانوی حکومت کے خلاف جہاد کی للکار دی۔ (Sultan-i-Rome, The Sartor Faqir Life and Struggles Against British Imperialism, 1994)
کچھ مستشرقین نے سرتور فقیر کو امیر افغانستان کا ایجنٹ قرار دیا، جو پہلے سے برطانوی راج کے خلاف جہاد کے لیے تیار تھا۔ (Edwards, Charismatic Leadership and Political Process in Afghanistan, 1986)
اُن کا کہنا تھا کہ اگر امیر کی حمایت نہ ہوتی، تو مقامی قبائل کبھی برطانوی حکومت کو چیلنج نہ کرتے۔ (McMahon and Ramsay, Report on the Tribes of the Malakand Political Agency, 18)
٭ برطانوی پالیسی اور سوات کے عوام:۔ برطانوی حکمتِ عملی کے تحت مقامی خانوں کو مالی مراعات فراہم کی گئیں، جس سے عوام میں بدگمانی پیدا ہوئی۔ خانوں نے سرتور فقیر کو روکنے کی کوششیں کیں، لیکن ان کی یہ کوششیں الٹا ان کے خلاف گئیں۔ احمد اکبر نے لکھا: ’’سوات میں زیادہ تر بڑے خان عوامی تحریکوں سے الگ رہے اور بعض خفیہ طور پر برطانوی حکومت کے ساتھ مل گئے۔‘‘ (Ahmad, Millennium and Charisma Among Pathans, 109)
٭ سرتور فقیر کا پیغام:۔ برطانوی انٹیلی جنس رپورٹ کے مطابق، سرتور فقیر کا پیغام مذہبی اور کرشماتی پہلو رکھتا تھا۔ انھوں نے دعوا کیا کہ ان کے ساتھ آسمانی لشکر ہیں اور برطانوی اسلحہ کارآمد نہیں ہوگا۔ ان کے کرشماتی دعوؤں نے عوام کو ان کی طرف کھینچ لیا۔ (Ahmad, Millennium and Charismatic Leadership Among Pathans, 109)
لڑائی کا آغاز اور انجام:۔ 1897ء میں ملاکنڈ پر حملہ شروع ہوا۔ ایک ہزار سے زائد افراد سرتور فقیر کے ساتھ شامل ہوگئے۔ لڑائی سات دن (26 جولائی تا 2 اگست 1897ء) جاری رہی۔ آخرِکار، جنرل بِنڈن بلڈ کی سربراہی میں ریلیف فورس کی آمد کے بعد، سرتور فقیر کے ساتھی منتشر ہوگئے۔ بہت سے سواتی مارے گئے ، اور برطانوی افسران بھی ہلاک ہوئے۔ (Holdich, Swatis and Afridis, 1899)
’’ہاؤس آف کامنز‘‘ میں اپوزیشن نے حکومت پر تنقید کی کہ اُس نے سوویت یونین کی ممکنہ جارحیت کے خلاف ہند کی سرزمین کے تحفظ کے لیے ناقص فوجی پالیسی بنائی۔ ساتھ ہی حکومت پر الزام لگایا گیا کہ اس نے ہندوستان کے وائسرائے کے اُس مشہور اعلان کی پاس داری نہیں کی، جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ پشاور اور چترال کے درمیان کسی علاقے پر قبضہ نہیں کیا جائے گا اور وہاں آباد قبائل کی آزادی میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ (دی مانچسٹر گارڈین، 3اگست 1897ء)
اس موقع پر، سر ونسٹن چرچل، جو ملاکنڈ فیلڈ فورس کے کمانڈر تھے، نے برطانوی حکومت کی فارورڈ پالیسی کا دفاع کیا۔ انھوں نے اپنی والدہ، لیڈی رینڈولف کو اپنے 15ویں ٹیلیگرام میں لکھا: ’’ہندوستانی سرحد پر حالات انسانی قابو سے باہر ہیں۔ اَب جب کہ ہم نے یہ راستہ اختیار کیا ہے، پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور ہمیں جلد از جلد آگے بڑھنا ہوگا۔ مالی لحاظ سے یہ تباہ کن ہے، اخلاقی لحاظ سے یہ غلط ہے، عسکری نقطۂ نظر سے یہ ایک کھلا سوال ہے اور سیاسی طور پر یہ ایک غلطی ہے، لیکن اب ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ آخرِکار، برطانوی عوام کو الحاق کا تلخ گھونٹ پینا ہوگا، اور جتنا جلدی وہ اسے قبول کریں گے، حالات اتنے ہی بہتر ہوں گے۔‘‘ (ٹوی، ’’دی رِڈل آف دی فرنٹیئر: ونسٹن چرچل، دی مالاکنڈ فیلڈ فورس اینڈ دی ریٹورک آف امپیریل ایکسپینشن‘‘، 2011ء)
٭ بعد کے اثرات:۔اگرچہ سرتور فقیر پیچھے ہٹ گئے ، لیکن جہاد کا جذبہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ اُس کی وفات (1917ء) پر ملاکنڈ کے پولی ٹیکل ایجنٹ نے کہا: ’’ایک مستقل خطرہ ختم ہو گیا۔‘‘
ڈاکٹر سلطانِ روم نے اس جد و جہد کو ان الفاظ میں بیان کیا: ’’19ویں صدی میں جہاد، اسلام کے روایتی نظریات کی برطانوی سامراج کے خلاف آخری کوشش تھی۔ فتح سے زیادہ جد و جہد اہم تھی؛ اُصول مقصد سے زیادہ اہم تھا۔‘‘
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔