ایک دن بعد ایک نیا سال شروع ہوجائے گا۔ سالِ نو کی جشن کو باقاعدہ ایک تہوار بنایا گیا ہے۔ ہر ملک میں اس کو منانے کا انداز الگ الگ ہوتاہے۔ کچھ لوگ اس موقع کوبھی خوش اور غم کے ملے جلے جذبات میں تقسیم کرتے ہیں۔ جو طبقہ اس جشن کو لمحۂ افسوس قرار دیتا ہے، اُن کے ہاں دیگر دلائل کے علاوہ یہ دلیل بھی موجود ہے کہ چوں کہ زندگی سے ایک سال کم ہونا قابلِ افسوس ہے، اس لیے سالِ نو کا جشن ماننا بنتا نہیں۔
دوسری طرف جو لوگ اس جشن کو مانتے ہیں، اُن کاخیال ہے کہ نئے سال میں نئی شروعات کرنے جا رہے ہیں۔ لہٰذا نئے سال کو خوش آمدید بھی کہاجاسکتا ہے۔ اس کو خوشی کا لمحہ قرار دینے کے لیے ایک بھرپور جشن بھی منانا چاہیے۔
ان دونوں فکروں اور دعوؤں پر غور کیا جائے، تو اولذکر خیال والے ہمارے ہاں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ ہم چوں کہ (الحمد للہ) مسلمان ہیں۔ ہمارا ملک ایک ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ ہے اور یہاں ہر معاملے کو ’’اسلامی عینک‘‘ سے دیکھنے کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ لہٰذا سالِ نو کی خوشی کو غیر مسلموں کا تہوار قرار دے کر اس کامنانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہاں جس معاملے کو ’’دینِ اسلام‘‘ سمجھا جاتاہے، وہ دراصل ہر مکتبۂ فکر کا ’’ذاتی مذہب‘‘ ہے، جس کو عوام کے سامنے دین بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ اپنے ملک کی چار دیواری سے نکلیں، تو دنیا کے باقی اسلامی ممالک میں وہ چیزیں دیکھنے کونہیں ملتیں، جو ہمارے ہاں دین کے نام پر ہوتی اور بِکتی ہیں۔ مثلاً: ’’اسلامی شہد‘‘، ’’مدنی دودھ‘‘، ’’مکی ٹریول‘‘، ’’حرمین ٹریڈرز‘‘، ’’بسم اللہ کارپوریشن‘‘،و علیٰ ہذا القیاس۔
دین کی ان خود ساختہ تعبیرات نے یہاں زندگی کو واضح طور پر حلال اور حرام میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ یا تو آپ کا کوئی کام اسلامی ہوگا یا غیر اسلامی۔ اب اسلامی کام بھی وہی مانا جاتاہے، جو اسلامی طبقے کو قابلِ قبول ہو۔ حالاں کہ انسانی زندگی اور نفسیات سے جڑے تمام معاملات فقط حلال اور حرام میں تقسیم نہیں کیے جاسکتے، بل کہ ان دونوں کے مابین بھی ڈھیر سارے اُمور ہیں،جن میں سے کچھ مباح اور کچھ مشتبہ ہیں۔ مشتبہات سے بچ کر بھی مباح امور سے زندگی پُرلطف ہوسکتی ہے۔
سالِ نو کاجشن بھی شاید ایسا ایک معاملہ ہے۔ چوں کہ یہاں دقیانوسیت رائج ہے، اس لیے ممکن ہے کہ لفظ ’’جشن‘‘ ہی سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہو کہ لازمی طور پر اس جشن میں غیر اسلامی معاملات ہوں گے۔ حالاں کہ یہ لازمی نہیں۔ جشن فقط خوشی کا سماں ہوتا ہے اور خوشی جائز بھی ہوسکتی ہے۔
مجھے یہ سطور لکھتے وقت یاد آیا کہ ایک دفعہ پشاور جناح پارک میں کچھ نوجوانوں نے ’’یوتھ میلہ‘‘کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں ایک فلم بھی دکھائی جانی تھی۔ ’’دین دار طبقے‘‘ کو معلوم ہوا، تو شکایت ہونے لگی۔ اس پر متعلقہ لوگوں نے جاکر ’’دین داروں‘‘کوسمجھایا کہ فقط لفظ ’’فلم‘‘ سے ڈرنا اچھی بات نہیں۔ بلاشبہ فلم انگریزی کا لفظ ہے، مگر نہ تو ہر فلم حواس باختہ ہوتی ہے اور نہ ہر انگریز کافر یا قابلِ نفرت ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہاں بھی فقط جشن کے لفظ سے چڑ پیدا کی گئی ہے، جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ مَیں تو کہتا ہوں کہ جشن منانے کے لیے پورا سال انتظار کیوں کرنا پڑتا ہے؟ زندگی کے ہر لمحے کو پُرمسرت بنانا چاہیے۔ زندگی فقط آہوں، سسکیوں اور نوحوں کا نام تو نہیں۔ اگر آپ صحت مند ہیں، اتنی دولت پاس ہے کہ باعزت کھانا دست یاب ہے، تو ہر لمحہ آپ کے لیے جشن کا سماں ہونا چاہیے…… لیکن اگر کوئی سال کے اختتام پر جشن مناتا ہے، تو اُس کو بھی نہیں روکناچاہیے۔ ممکن ہے کہ جشن مناتے مناتے ہی وہ یہ سوچ لے کہ سالِ گذشتہ میں جو کچھ میرے اعمال رہے ہیں، کیا وہ اس قابل تھے کہ مَیں خوش ہوجاؤں…… یا اُن پر ندامت کرنی چاہیے اور توبہ کرنا چاہیے۔
ممکن ہے کہ اس جشن میں وہ آیندہ کے لیے منصوبہ بندی کرے اور سالِ گذشتہ میں جو غلطیاں ہوئیں، جو کوتاہیاں ہوئیں، اُن کو نہ دہرانے کا عزمِ مصمم کرے۔
قارئین! دنیا بھر میں سالِ نو کاجشن منایا جاتاہے۔ ہمارے ہاں مگر ایک عرصے سے اس کو حلال اور حرام کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ آدمی کو اتنا بھی حساس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر گھٹن کے اس ماحول میں چند لمحوں کو کوئی خوش ہونا چاہے، تو اسے یہ سپیس دینا چاہیے۔ آخر ایک کی خوشی منانے سے دوسرے کو کیا تکلیف ہوسکتی ہے؟
میرا خیال ہے کہ ہر لمحہ قابلِ جشن ہونا چاہیے۔ بہ شرط یہ کہ واقعی ہمارے اعمال ایسے رہے ہوں، جن پر فخر کیا جاسکے اور خوشی منائی جاسکے۔
محترم قارئین! جاتے جاتے آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد دینا چاہوں گا۔ اگلے ہفتے ایک نئے سال میں مکمل نئے جذبوں کے ساتھ ملاقات ہوگی (اِن شاء اللہ!)
یار زندہ صحبت باقی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
