٭ تعارف:۔ سوات کے مذہبی اور سیاسی اُفق پر اخوند آف سوات کا کردار انتہائی نمایاں اور موثر رہا ہے۔ اُن کے روحانی اثر و رسوخ نے نہ صرف سوات، بل کہ اس کے آس پاس کے علاقوں میں بھی گہرے نقوش چھوڑے۔ انگریزوں نے اُنھیں ان کے سیاسی، مذہبی اور سماجی اثرات کی بنا پر ’’پوپ آف سوات‘‘ کا خطاب دیا۔ اُن کی قیادت میں اسلامی اصولوں کے نفاذ اور مذہبی منافرت کے انسداد کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے، جن کے اثرات آج تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
اخوند کو انگریزوں نے اُن کے سیاسی، مذہبی اور روحانی اثر و رسوخ کی بنا پر ’’پوپ آف سوات‘‘ کا خطاب دیا۔ اُن کے پیروکار اور مرید اُنھیں ’’صاحب علیہ الرحمہ‘‘ کَہ کر پکارتے تھے۔ اخوند نہ صرف سوات اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مشہور تھے، بل کہ برٹش کے زیرِ کنٹرول علاقوں کے علاوہ عرب، ترکی، فارس، ہندوستان، افغانستان اور بخارا سے بھی معتقدین اُن کے دربار کی زیارت کے لیے آتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ روزانہ تقریباً 300 افراد اُن کی زیارت کے لیے حاضر ہوتے تھے۔
آزاد اور برٹش کے زیرِ کنٹرول دونوں علاقوں میں معاشرتی اور مذہبی رسومات کو اسلامی اُصولوں کے مطابق چلانے کے لیے وہ باقاعدہ احکامات اور فتوے جاری کرتے تھے۔ یہ احکامات خاص تربیت یافتہ مریدین، جنھیں ’’شیخ‘‘ یا ’’شیخان‘‘ کہا جاتا تھا، کے ذریعے نافذ کیے جاتے تھے۔
ایک برطانوی رپورٹ کے مطابق اُن شیوخ کی تعداد 10 تھی، جن میں سے 7 موبائل ڈیوٹی پر رہتے تھے، جب کہ 3 مستقل طور پر سیدو میں اخوند کے ساتھ رہتے تھے۔ اُن میں سے ایک شیخ ابوبکر، جو ’’ملا پاسنی‘‘ کے نام سے مشہور تھے، اخوند کے معتمدِ خاص تھے۔ وہ خزانچی اور انتظامی اُمور کے نگران بھی تھے۔
برطانوی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ اخوند کے پاس مذہب سے متعلقہ کتب کا ایک بڑا ذخیرہ موجود تھا، لیکن اُنھیں اس پر مکمل عبور نہیں تھا۔ اس لیے زیادہ تر فیصلے سیدو میں موجود علما سے کروائے جاتے تھے۔ یہ فیصلے اور احکامات، چاہے اخوند خود جاری کرتے یا اُن کے شیوخ کے ذریعے، پیروکاروں اور عوام کے لیے ماننا ضروری سمجھا جاتا تھا۔
٭ اخوند کے چند احکامات:۔ "T. J. C. Plowden” نے اپنی خفیہ رپورٹ "Leading Persons and State of Factions.” میں اخوند کے چند احکامات کا ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہوں:
٭ اخوند وقتاً فوقتاً شادیوں میں موسیقی بجانے، والدین یا سرپرستوں کا دولھا سے دلھن کے عوض رقم قبول کرنے اور تمباکو نوشی کے خلاف احکامات جاری کرتے تھے۔
٭ ایک عجیب مثال یہ ہے کہ کچھ سال پہلے اُنھوں (اخوند) نے تمام بیواؤں کی شادی اور بالغ لڑکیوں کی فوری شادی کا حکم دیا تھا۔ اس حکم کا مقصد غیرشادی شدہ خواتین میں بے راہ روی کو روکنا تھا۔
٭ زید اللہ خان کی انگریزوں کو امبیلہ مہم (1863ء) میں دی گئی مدد اور اُن کے دیگر دوستانہ تعلقات نے اخوند کو اُن کے خلاف کر دیا۔ جب زید اللہ خان نے اخوند کے مذہبی حریفوں کے ساتھ اتحاد کرلیا، تو اخوند نے اشازئی قبیلے کے کچھ افراد کو اُن کے گھر کا محاصرہ کرنے کا حکم دیا، جہاں ایک شدید لڑائی کے بعد اُنھیں قتل کر دیا گیا۔
٭ پبی گاؤں، جو برطانوی تسلط میں تھا، میں ایک شخص کو اخلاقی بدعنوانی کے الزام میں اخوند کے سامنے پیش کیا گیا۔ اخوند نے فتوا دیا کہ اس کے چہرے کو کالا کیا جائے، گدھے پر بٹھا کر بازار میں گھمایا جائے اور اس کے پیچھے ڈھول بجایا جائے (The Akhund of Swat, The Leisure Time, January 18, 1879)
٭ اخوند اپنے مذہبی حریفوں اور اُن کے پیروکاروں کو ’’مرتد‘‘ قرار دے دیتے تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ’’وہابی‘‘ قرار دیا جانا اخراج کے مترادف تھا۔ ایسے افراد کو، اگر کسی گاؤں میں اکیلے ہوں، شدید اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا، یہاں تک کہ اُن کا قتل بھی جائز قرار دیا جاتا، جب تک کہ وہ اخوند کو راضی نہ کرلیں۔ مثال کے طور پر قصبہ (شنواری علاقہ) کے مولوی اور کوٹہ کے ملا کو وہابی قرار دے کر برادری سے نکال دیا گیا تھا۔
٭ جب ’’کاکا خیل میاگان‘‘ نے اخوند کی روحانی قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، تو اُنھوں نے کاکا خیل مسجد میں موجود ایک سیاہ پتھر کے سامنے سجدہ کرنے کو شرک قرار دیا۔ اخوند نے اپنے ایک مرید کو اس پتھر کو توڑنے کا حکم دیا۔ اُن کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے، اُس مرید نے ایک لوہے کی سلاخ سے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا (T. P. Hughes, Christian Intelligencer, 1876)
بیسویں صدی کے پہلے رُبع میں، جب اخوند کے پوتے میاں گل عبد الودود (باچا صاحب) نے ریاستِ سوات کو مستحکم کیا، تو مذہب اور مذہبی معاملات کو کنٹرول میں لے کر وہابی-بریلوی منافرت کو وقتی طور پر دبایا گیا اور یہی سلسلہ والئی سوات کے دور تک جاری رہا۔ تاہم ریاست کے ادغام کے بعد، خاص طور پر ’’تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی‘‘ (ٹی این ایس ایم) اور ’’تحریکِ طالبان سوات‘‘ کے سوات پر کنٹرول کے دوران میں، یہ منافرت دونوں فریقوں کے درمیان انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ بریلویوں کے کچھ اہم پیش اماموں کو طالبان نے قتل کیا، کچھ کو سوات سے نکال دیا اور مزارات کی بے حرمتی بھی کی۔ یہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ مذہبی منافرت آیندہ بھی جاری رہ سکتی ہے۔
٭ اختتامیہ:۔ اخوند آف سوات کی زندگی اور قیادت ایک ایسا باب ہے، جس نے سوات کی تاریخ کو مذہبی، روحانی اور سیاسی لحاظ سے ایک منفرد پہچان دی۔ اُن کے اقدامات، فتوے اور اصلاحات اپنے وقت کے لیے بے مثال تھے، لیکن اُن کے کچھ فیصلے آج کے سیاق و سِباق میں متنازع سمجھے جا سکتے ہیں۔ اُن کے ورثے نے سوات میں مذہبی قیادت کے کردار کو مضبوط کیا، لیکن ریاست کے ادغام اور بعد میں پیدا ہونے والے حالات نے مذہبی اختلافات کو ایک نئی شکل دے دی۔
آج بھی اخوند کی شخصیت اور قیادت سوات کی تاریخ کے مطالعے میں ایک مرکزی مقام رکھتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔