قاضی امداد اللہ ایڈوکیٹ (مرحوم)

Blogger Sajid Aman

(مرحوم) قاضی امداد اللہ ایڈوکیٹ سوات بار ایسوسی ایشن اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے ابتدائی ممبر تھے۔
وکالت کا پیشہ ڈھیر سارے لوگوں نے سنا ضرور تھا، مگر وکیل کی شخصیت کیا اور کیسے ہوتی ہے؟ یہ ٹی وی اور فلموں ہی میں دِکھتا تھا۔ مکان باغ سے گزرتے ہوئے قاضی امداد اللہ وکیل صاحب کے بورڈ کو دیکھ کچھ لوگ خیال کرتے تھے کہ قاضی حبیب اللہ صاحب کے فرزند شاید قاضی صاحب کے اسسٹنٹ ہیں، اس لیے یہ بورڈ لگا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کوئی بڑے سرکاری افسر ہیں۔
قاضی صاحب 5 جولائی 1943ء کو بڑے قاضی حبیب الرحمان کے بڑے گھر میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے وکالت کا پیشہ اختیار کیا، تو اُن کے دیکھا دیکھی خاندان اور علاقے کے ڈھیر سارے لوگوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کرکے یہی پیشہ اختیار کیا۔
قارئین، وکیل اللہ کا صفاتی نام ہے اور کالے کوٹ میں ملبوس شخص لازمی عزت کا حق دار ہوتا ہے۔ پھر جب ایسا شخص بااُصول ہو، تو مسئلے حل کرنے کی الٰہی صفات سے شخصیت نکھر جاتی ہے۔ قاضی صاحب بھی ایسے ہی انسان تھے۔ مطالعہ ورثے میں ملا تھا۔ علم دوستی خون میں شامل تھی۔ اعلا اخلاقیات ترکے میں ملی تھیں۔ بردباری اور حلیم فطری نے وہ نکھار دیا تھا کہ عام لوگ تو کیا، ساتھی وکیل بھی انتہائی احترام سے ملتے تھے۔
6 اکتوبر 2021ء کو ایک جان لیوا دورے نے اُن کے دل کو مزید اس دنیا میں رہنے سے منع کیا۔ یوں ایک وکیل رخصت نہیں ہوئے، ایک دور، ایک تاریخ، ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ اُن کا انتقال وکلا، شہریوں، شاگردوں اور سول سوسائٹی کے لیے ایک صدمہ تھا۔
قاضی صاحب جب حیات تھے، تو اُن کے ساتھ بیٹھ کر سینئر اور جونیر سبھی ساتھی وکیل انتہائی دوستانہ محفل جما لیتے۔
مکان باغ اب بھی خوب صورت ہے، مگر حقیقتاً اس کی خوب صورتی چنار کے سایہ درخت، اُس کے نیچے دھوبی گھاٹ اور وہی پر دھرے بڑے پتھر ، اُس کے نیچے خوڑ میں صاف شفاف بہتا ہوا پانی، ندی کی لہروں کی آوازیں، دونوں جانب بے اعتنائی سے سر اٹھائے ہوٹل جو شہر اور دارالحکومت کے درمیان ایک پوش تقسیم کی علامت کے طور پر نمایندگی کرتے، مکان باغ مسجد جو سوات میں پہلا سرکاری دارالعلوم جسے ریاست نے بڑے قاضی صاحب کی سرپرستی میں شروع کیا تھا، پھر ہوٹلوں کے سلسلے اور پھر زراعت کا دفتر، گراسی گراؤنڈ، روڑ کے دوسرے کنارے چناروں کے بعد ڈاکٹر چوہان کا کلینک، ڈرائی کلینر اور چند دُکانیں، پھر ایلم ہوٹل، پھر ہالی ڈے ہوٹل اور پھر فارم اور میوزیم کے درمیان دارالعلومِ اسلامیہ کی بلڈنگ جو مکان باغ قاضی صاحب کی زیرِ نگرانی چلتا تھا اور مکان باغ مسجد سے مذکورہ سرکاری بلڈنگ میں شفٹ ہوا، اب بہت بڑا ادارہ بن گیا ہے، اس کا پچھلا حصہ تاحدِ نظر کھیت ہی کھیت اور اس سائڈ مسجد اور ہوٹلوں کے پیچھے طویل باغ واقعی ’’مکان باغ‘‘ تھا۔
تب بھی مکان باغ، مینگورہ شہر کی رونق کا سامان تھا اور اب بھی شہر کا دل ہے…… مگر پارک ہوٹل کی خالی جگہ سسکتی ضرور ہوگی۔ پرُشکوہ تاریخی عمارت کو بڑی بے دردی سے منہدم کر دیا گیا، جیسے شہر کا گھمنڈ، تہذیب، روایت سب کچھ سرنگوں کیا گیا۔ پارک ہوٹل جیسے ورثے کو گرا کر پتا نہیں اب کیا کھڑا کیا جائے گا؟ اس کے آگے سے گزرتے ہوئے مرحوم بلڈنگ کی کچھ بنیادیں سوال کرتی ہیں۔
چناروں کی جگہ ہوٹل، پلازے اور پانی کی آواز کی جگہ سماعت خراش ہیوی ہارنز نے لے لی ہے۔
اسی طرح قاضی خاندان کے بڑے بوڑھے بھی ایک ایک کرکے منوں مٹی تلے دب گئے۔
یہ وہی شہر ہے، یہ وہی جغرافیہ ہے، پتا وہی ہے، بس مکان و مکیں بدل گئے ہیں۔ احساس کوچ کرگیا ہے۔ کنکریٹ اُگ آیا ہے اور سکون رختِ سفر باندھ چکا ہے۔ رش بہت ہے، مگر تنہائی ہے اور بلا کی نامانوسیت ہے۔ اللہ تعالیٰ قاضی صاحب کی مغفرت فرمائے، اُن کی برکتیں اُن کے خاندان کو منتقل ہوں اور جنت الفردوس میں اُن کے درجات بلندہوں، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے