17 اگست 1969ء کو جناب ہمایون جو اُس وقت پی اے ملاکنڈ ایجنسی تھے، سوات پہنچ گئے اور مقبوضہ ریاست کا چارج سنبھال لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ انضمام کا اعلان عجلت میں کیا گیا تھا۔ بغیر اس منصوبہ بندی کے، کہ نیا نظام کیسے متعارف کرایا جائے اور عوام کو تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے کیسے تیار کیا جائے؟ سابقہ ریاستِ سوات کے مخالف عناصر، اقتدار کی راہ داریوں میں مرغوں کی طرح پر پھڑپھڑاتے رہے، گویا یہ انضمام ان ہی کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔
سابق ریاستی محکموں میں سے زیادہ تر کو تحلیل کیا جانا تھا۔ خاص طور پر کم و بیش 14000 ملیشیا، پولیس اور ’’سڑکیان‘‘، جو ’’کمانڈر روڈز‘‘ کے تحت ریاستی افواج کا ذیلی حصہ تھے۔ ملیشیا کو تحلیل کرنا اتنا پیچیدہ نہیں تھا، کیوں کہ فوجی دفتر میں ہر رینک کا تفصیلی اور مستند ریکارڈ موجود تھا۔ تحلیل کے طریقۂ کار کے لیے ایک ’’پروفارما‘‘ تیار کیا گیا تھا۔ یہ ایک سروس سرٹیفکیٹ تھا، جس پر ہر شخص کا نام، رینک اور دیگر متعلقہ ڈیٹا موجود تھا۔ اس سرٹیفکیٹ پر نائب سالار سید جہاں خان کے دستخط تھے۔ ہر ملیشیا پرسونل کو رینک کے لحاظ سے ایک مخصوص رقم کا انتخاب کرنے یا مفت لائسنس کے ساتھ اپنی پسند کا ایک ہتھیار رکھنے کا اختیار دیا گیا۔ اس عمل میں تقریباً 3 مہینے لگے اور ہر کیس کو تسلی بخش طریقے سے نمٹا دیا گیا۔
کمانڈروں کو پولیس میں بہ طور ڈی ایس پی ضم کیا گیا۔ نائب سالار عمرا خان کو ڈسٹرکٹ آفیسر فرنٹیئر کانسٹیبلری بنا دیا گیا۔ تعلیم اور صحت کے محکموں کے ملازمین خود بہ خود صوبائی محکموں میں شامل ہوگئے، لیکن اصل مسئلہ ریاستی "P.W.D” تھا۔ کلریکل سٹاف اور ہنر مند ورکرز جیسے پلمبرز، بڑھئی، معمار اور الیکٹریشنز کو آسانی سے صوبائی کیڈرز میں ایڈجسٹ کرلیا گیا۔ مسئلہ ہم چھے اوورسیئرز، جنھیں والیِ سوات نے بہ ذاتِ خود اس عہدے پر فائز کیا تھا، کا تھا اور جن کے پاس منظور شدہ ٹیکنیکل اداروں کا کوئی ڈپلومہ بھی نہیں تھا۔ انضمام کے منصوبے پر کام کرنے والی کمیٹی کی سربراہی ایک سیکشن آفیسر مسٹر بنگش کر رہا تھا۔ وہ کسی نہ کسی بہانے ہمارے کیس میں تاخیر کر رہا تھا۔
مَیں ریاستی "P.W.D” کی نمایندگی کر رہا تھا۔ آخرِکار ہفتوں پر محیط نشست و برخاست اور گفت و شنید کے بعد، اس نے رہ نمائی کے لیے صوبائی حکومت کو خط لکھا۔ گورنر نے ایک خصوصی نوٹیفکیشن جاری کیا۔ اس نوٹیفیکیشن میں ہم سب کی تکنیکی قابلیت میں نرمی دی گئی اور ہمیں B/R محکمہ، NWFP میں بہ طور اوورسیئر شامل کر دیا گیا، بعد میں سب انجینئر بنا دیا گیا۔
جیسے ہی انضمام کا منصوبہ مکمل ہوا، سابق ریاست کے افسران/ اہل کار جو ایڈجسٹ نہیں ہوسکے تھے۔ انھیں 20 ماہ کی تنخواہیں یک مشت ادا کی گئیں اور ڈپٹی کمشنر سوات کے جاری کردہ آفس آرڈر کے ذریعے ریٹائر کر دیا گیا۔ ہر اہل کار کو اُس کی خدمات اور انضمام کے منصوبے کو کام یاب بنانے کے لیے تعریفی خط/ سند دی گئی۔ خط کا آغاز ان الفاظ سے ہوا تھا:
’’عزت نشان……!‘‘
اس سند میں سبک دوش ہونے والے ریاستی عہدے داروں کے نام اور عہدے اور ان کی خدمات کے لیے تعریف کے کچھ جملے درج تھے۔
ہمارے سربراہ سابق ریاستی "P.W.D” حاجی محمد کریم صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی حسنِ سلوک کیا گیا۔ اس دن جب وہ ڈی سی آفس سے واپس آئے، تو انھوں نے خط کو لہراتے ہوئے مذاق میں کہا: ’’دیکھو، مجھے نشانِ حیدر مل گیا ہے! ‘‘
یہ ایک عظیم اور فعال انسان کی خدمات کا انجام تھا، جس کے کریڈٹ پر سیکڑوں سکول، کالج، کالونیاں، ودودیہ ہال اور مسجد کالج کالونی تھے۔ وہ شاہدرہ میں اپنے نئے تعمیر شدہ گھر میں شفٹ ہوگئے۔ وہ محلہ آج بھی ان کے نام پر ایس ڈی اُو محلہ کہلاتا ہے۔
اسی دوران میں پہلے ڈی سی کا تبادلہ ہوا اور جناب عزیز الحسن خان نے چارج سنبھال لیا۔ وہ ایک بہت ہی شریف اور قابل افسر تھے۔ انھوں نے نئے سیٹ اَپ میں ایڈجسٹ کیے گئے سابق ریاستی ملازمین کے ساتھ مشفقانہ سلوک کیا۔ مَیں نے ان کے ساتھ چند ملاقاتیں کیں اور انھیں بہت ملن سار اور چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کرنے والا پایا۔ انھوں نے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جو نظام کو کام یاب بنانے میں مدد کرنا چاہتے تھے۔ (جاری ہے)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔