تحریر: ستار طاہر
ڈرامے کا فن بہت قدیم ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے کہ مختلف ممالک میں ڈرامے اور تھیٹر کا آغاز کس طرح ہوا اور کون سے ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد آج کہاں پہنچ گیا ہے؟
قدیم عہد کے جن ڈراموں کا شہرہ ساری دنیا میں ہے، اُن میں ایک کھیل ’’کالی داس‘‘ کا ہے اور اُس کا نام ’’شکنتلا‘‘ ہے۔
کالی داس کی شکنتلا کا ترجمہ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں ہوچکا ہے۔ یہ ایک ایسا کھیل ہے، جو سنسکرت میں لکھا گیا اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ دُنیا کی ساری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ اس کھیل کا موازنہ یورپی زبانوں کے قدیم اور مشہور المیوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں کہ اس کھیل کا ایک اپنا مزاج ہے اور اپنا ماحول۔ اس کے باوجود شکنتلا میں ایک ایسی آفاقیت اور انسانیت ہے، جس نے اس ڈرامے کو قدیم یورپی زبانوں کے ڈراموں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے۔
کالی داس کے بارے میں جو حالات معلوم ہوتے ہیں وہ بہت مختصر اور ناکافی ہیں۔ بعض بڑے اور ہمیشہ زندہ رہنے والے اپنے کام کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل کرتے ہیں اور کالی داس بھی انھی میں سے ایک ہے۔
کالی داس کا شمار دنیا کے چند بڑے شاعروں میں ہوسکتا ہے۔ اُس کے دونوں شاہ کار ’’شکنتلا‘‘ اور ’’میگھ دوت‘‘ عظیم شاعری کے بے مثل فن پارے شامل ہیں۔ ’’میگھ دوت‘‘ ہجر و فراق کی وہ شاعری ہے، جو صرف ایشیا اور مشرق ہی سے مخصوص ہے۔
اس میں شاعر بادلوں کو اپنا قاصد بناتا ہے اور ان کے ذریعے اپنے محبوب تک اپنے ہجر کا احوال بیان کرکے سرخ رو ہوتا ہے۔ ’’میگھ دوت‘‘ کی شاعری میں ایسا سوز ہے، ایسا درد ہے، جو دنیا کی بڑی شاعری میں پایا جاتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے اگر مولوی غلام رسول کی چٹھیاں یاد آ جائیں، تو جان لیجیے کہ دنیا کی ہر زبان میں صدیوں کے فاصلوں کے باوجود بڑے شاعر ہجر و فراق کے ایسے تجربوں سے گزرتے رہے ہیں، جنھوں نے پوری دنیا کے ان انسانوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے، جنھوں نے ہجر و فراق کے دکھ سہے ہیں۔
شکنتلا کالی داس کا وہ شاہ کار ہے، جس کے بارے میں گوئٹے نے کہا تھا: ’’کیا تو یہ چاہتا ہے کہ کوئی ایسا نام ہو، جس میں سال کے اولین پھول اور آخری اعتماد اور وہ تمام چیزیں جن سے روح مسحور، محفوظ اور سیراب ہوتی ہے اور آسمان اور زمین سبھی سما جائیں، تو پھر شکنتلا تیرا نام لینا کافی ہے۔‘‘
’’ابھگیان شکنتلا‘‘ کا انگریزی میں جو مستند ترین ترجمہ سمجھا جاتا ہے، وہ ’’رائیڈر‘‘ کا ہے۔ اُردو میں سب سے اچھا ترجمہ قدسیہ زیدی نے کیا ہے اور اس کے لیے وہ خصوصی داد کی مستحق ہیں۔ شکنتلا کے تعارف کے لیے مَیں نے جو ٹکڑے لیے ہیں وہ قدسیہ زیدی ہی کے ترجمہ کا حصہ ہیں۔
شکنتلا میں بھی یونانی المیوں کی طرح دیوتا بھر پور اور فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو تقدیر بنانے والے ہیں۔ ان کے شراب اور ان کی دعا سے انسانوں کی قسمتیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ شکنتلا کے ہاتھ کی انگوٹھی کھوجاتی ہے، تو اس کے محبوب راجہ دشنیت کا حافظہ بھی کھوجاتا ہے۔ یوں ایک ایسا المیہ جنم لیتا ہے، جس کے خالق دیوتا ہیں…… لیکن جیسا کہ یونانی المیوں کے کردار دیوتاؤں کے غیظ و غضب اور تقدیر سازی کا شکار ہونے کے باوجود کٹھ پتلی نہیں بنتے، بل کہ اپنی انسانیت کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح شکنتلا کے کردار بھی اپنے انسان ہونے کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں۔
یہ شکنتلا جو بند کٹیا میں پلی اور رہتی ہے، اُن معدودے چند کرداروں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں بڑے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ انسانی ذہن نے اتنے نرم و نازک اور حسین کردار بہت کم تخلیق کیے ہیں۔
شکنتلا کا حسن، اُس کی معصومیت، اُس کی سادگی اور پُرکاری غالب کے اس شعر میں ملتی ہے:
سادگی و پر کاری بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا
شکنتلا کا حسن، معصومیت میں بھی ایسی جرات آزمائی کا مظاہرہ کرتا ہے، جس کی مثال دنیائے ادب میں خال خال ہی ملتی ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ آج تک جتنی اداکاراؤں نے سٹیج پر یا فلم میں (دی شانتا رام کی فلم شکنتلا میں جے شری) شکنتلا کا روپ دھارنے کی کوشش کی ہے۔ اپنی شان دار خلاقانہ ذہانت کے باوجود اس شکنتلا کا عکس نہیں بن سکتی، جس کا خالق کالی داس ہے۔
کالی داس نے اپنے بے پناہ تخیل سے الفاظ میں جو چترکاری کی ہے، وہ دُنیا کی مخلوق ہونے کے باوجود دُنیائے ماورا سے نظر آتی ہے۔
راجہ دشنیت جب پہلی بار شکنتلا کو بَن میں دیکھتا ہے، تو وہ ایک ایسا منظر ہے، جو کبھی بھلائے نہیں بھول سکتا۔ راجہ دشنیت، شکنتلا کو ایک خاص حالت میں دیکھنے کے بعد اپنے آپ سے یوں کہتا ہے: ’’اس کے سینے پر بندھی ہوئی چھال، اس کے جوبن کو اس طرح چھپارہی ہے، جیسے کوئی کسی حسین غنچے کو پیلے پیلے پتوں میں چھپا کر اس کے حسن کو کم کرنے کی کوشش کرے۔ نہیں یہ بات نہیں، بل کہ یہ بل کل کی چولی تو اس کے قابل نہیں۔ پھر بھی اس کے حسن کو دوبالا کر رہی ہے۔ بھلا بے کس کھلی ہوئی کملنی کا اپنی سطح سے باہر نکلا ہوا ڈنٹھل بھی برا لگتا ہے اور کائی کے گھر جانے پر بے کس کنول کا حسن کم ہوا ہے کیا چاند کا داغ چاند کی خوب صورتی کو دو چند نہیں کر دیتا۔ اس طرح یہ بل کے کپڑوں میں اور بھی حسین معلوم ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حسن والے کچھ بھی پہنیں ہیں، اُن پر پھبنے لگتا ہے۔‘‘
کالی داس کی یہ شکنتلا جو بن کٹیا میں پلتی ہے، جو دیوی ہے۔ دشنیت اس پر عاشق ہو جاتا ہے۔ یہ عشق یک طرفہ نہیں۔ محبت کی یہی آگ شکنتلا کے دل کو بھی گرماتی ہے۔
دشنیت اس سے اپنا آپ چھپاتا ہے۔ وہ تو شکنتلا کے روپ کو ہی دیکھ کر اس کو اپنانے اور پتنی بنانے کا فیصلہ کرچکا ہے۔
شکنتلا میں وہ منظر بھی تو ایک ایسا منظر ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ وہ منظر ہے، جس میں دشنیت دیکھتا ہے کہ ایک کالا بھونرا کس ڈھٹائی سے شکنتلا کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ شکنتلا اس بھونرے سے تنگ آچکی اپنی سکھیوں سے کہتی ہے : ’’یہ بدتمیز بھونرا نہیں ملے گا۔ مَیں ہی یہاں سے ہٹ جاؤں ۔ ارے ارے، یہ تو یہاں بھی میرا پیچھا کر رہا ہے۔ اب کیا کروں! ہائے سکھیو، مجھے اس دشٹ بھونرے سے بچاؤ۔‘‘
اس منظر کے دہرے معنی ہیں۔ دنیا کا حسین پھول اور اس پر منڈلانے والا بھونرا اور پھر دشنیت بھی تو اُس وقت شکنتلا کے لیے بھونرا بن کر ہی وہاں چھپا کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا اور وہاں سے ٹلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
نرم و نازک جذبات بہت ہی ملائم خیالات اور احساسات اعمال اور ردِ عمل پر مبنی یہ کھیل انسانی جذبات کا ایک بے مثال مرقع ہے۔ تقدیر اور دیوتا اپنا وار کرتے ہیں۔ دیو مالا اور مذہب کے حوالے سے بھی اس میں جو بعض دیگر شہرۂ آفاق واقعات کے ساتھ مشابہت ہے، وہ اپنی جگہ خاص معنویت رکھتی ہے۔
شکنتلا کی وہ انگوٹھی گم ہو جاتی ہے، جو اُسے راجہ دشنیت نے دی تھی۔ جو اُس کی اور راجہ دشنیت کی شادی اور بندھن کا ثبوت ہے۔ اُس کے کھو جانے اور راجہ کی یادداشت مٹ جانے کے درمیان دیوتاؤں کی مرضی شامل ہے اور یوں ہجر کا دور شروع ہوجاتا ہے۔
حضرت سلیمان کے حوالے سے بھی ایک روایت ہے کہ اُن کی خاص انگوٹھی گم ہوجاتی ہے۔ بارہ برس ہے اور پھر انھیں بادشاہت سے محروم ہو کر بارہ برس بھاڑ جھونکنا پڑتا ہے اور پھر یہ انگوٹھی جو حضرت سلیمان کی ہے، وہ بھی مچھلی کے پیٹ سے برآمد ہوتی ہے۔ اس طرح جو انگوٹھی شکنتلا کی انگلی سے نکل کر گرتی ہے، وہ بھی مچھلی کے پیٹ سے ہی نکلتی ہے۔ انسانی تصورات اور خیالات میں جو عالم گیر اشتراک اور مساوات پائی جاتی ہے۔ یہ وہ موضوع ہے کہ جس پر جتنا زیادہ کام ہوسکے، اُتنا ہی انسانوں کے لیے انسانی زندگی اور اس دُنیا کے لیے مفید ثابت ہوسکتا ہے اور انسان انسان کے زیادہ قریب آ سکتا ہے۔
سنسکرت اور ہندی ڈرامے اور شاعری کا ایک خاص دور ایسا ہے جو اسے دوسری زبانوں کے ادب میں خاص مقام دلاتا ہے۔ یہاں صرف مرد ہی عورت کے حسن کی تعریف نہیں کرتا، بل کہ عورت بھی مرد کے حسن کی تعریف کرتی ہے۔ شکنتلا میں کچکی کا بیان دیکھیے، جو راجہ دشنیت کے بارے میں ہے۔
راجہ اندر آتا ہے، نمکین اور سوگوار ہے، کچکی اُسے دیکھ کر کہتی ہے: ’’حسین کسی حال میں ہی ہوں، حسین ہیں۔ سوگوار ہونے پر بھی ہمیں سُندر لگتے ہیں۔ آہوں سے نچلے ہونٹ کا رنگ پھیکا پڑگیا ہے۔ فراق میں جاگتے ہوئے آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی ہیں، مگر اس پر بھی جمال کا یہ عالم ہے کہ کانٹا سا جسم نور کے سانچے میں ڈھلا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ جیسے ہیرا سان پر چڑھ کر چھوٹا ہو جائے پر اپنی جوت نہیں کھوتا۔‘‘
شکنتلا کا ایک اپنا ماحول ہے، اتنا خوب صورت، دِل کش اور شاعرانہ ماحول شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ڈرامے میں پیش کیا گیا ہو۔ پھر اس کے کردار بھی اپنے انداز سے دنیا کے دوسرے بڑے ڈراموں سے بے حد مختلف ہیں۔ ان کے لباس بھی مختلف ہیں۔ ان کے اعمال اور مزاج بھی دوسرے عظیم فن پاروں کے کرداروں سے مختلف ہیں۔
القصہ، شکنتلا ایک ایسا کھیل ہے جو منفرد اور یک تا ہے۔
’’ڈیسمینڈ منسلے‘‘ نے شکنتلا پر خاص انداز کی تنقید لکھی ہے۔
ڈیسمینڈ منسلے کا وہ طویل مضمون شکنتلا کے محاسن پر ہی نہیں، بل کہ سنسکرت ڈرامے پر بھی ایک سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں ایک جگہ ڈیسمینڈ منسلے لکھتا ہے: ’’کالی داس نے شکنتلا میں جو دنیا بسائی ہے، وہ ہر بڑے ڈراما نگار کی تخلیق کردہ دنیا سے مختلف، انوکھی اور خوب صورت ہے۔ برلن میں ایک بار جس نے اس ڈرامے کو دیکھا، وہ اس کا شیدائی ہوگیا۔ مَیں جانتا ہوں کہ اس کے دیکھنے والے بیش تر لوگ اس تہذیب کلچر اور دیو مالا سے بالکل نابلد تھے، جس نے اس عظیم کھیل کو تخلیق کرنے میں اہم ترین کردار ادا کیا ہے، لیکن اس کھیل میں وہ جو ماحول اور جو مناظر پیش کیے گئے تھے، جس ماحول میں شکنتلا کے کردار زندہ رہتے ہیں۔ وہ اُن کے لیے اتنا انوکھا، جاذب اور خوش گوار تھا کہ میرے خیال میں اس کو دیکھنا ان ناظرین کے لیے ایک بڑے تجربے سے کسی طرح کم نہ تھا۔ پھر سنسکرت میں اس ڈرامے کی شاعری ہے جو ایسا نور ہے کہ آنکھوں کو بصیرت بخشتا اور ہمیشہ کے لیے دل میں سما جاتا ہے۔ عالمی ادب میں کتنے ایسے شہ پارے ہیں جن کی ہیروئنیں شکنتلا کی طرح خوب صورت ہیں؟ شاید بہت کم، شاید ایک بھی نہیں۔ شکنتلا اپنی طرز کی واحد ہیروئن اور تخلیق ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے ہر زبان کے لوگ اسے پڑھتے چلے آرہے ہیں اور پڑھتے رہیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔