مَیں اپنی شادی کی تفصیلات کو چھوڑ رہا ہوں۔ وہ بہت دردناک ہیں۔ مَیں دوبارہ ان یادوں سے نہیں گزرنا چاہتا۔ وہ زخم برسوں پہلے بھرچکے ہیں۔ میری بیوی کو دو چیزوں کا جنون تھا، روح کی صفائی اور گھر کی صفائی۔ پہلے تو وہ 24 گھنٹوں میں 8 بار نماز پڑھتی تھی، جب کہ ہم دن میں 5 وقت کا فرض بہ مشکل ادا کر پاتے تھے۔ اس کی عبادت کے اوقات فجر، اشراق، چاشت، ظہر، عصر، مغرب، عشا اور تہجد تھے۔ قرآنِ پاک ان کا ہمہ وقت کا ساتھی تھا اور ماہانہ 4 سے 5 مرتبہ وہ قرآنِ پاک کی تلاوت ’’الف لام‘‘ سے ’’والناس‘‘ تک کرتی تھی۔
ان تمام مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ، اس نے ایک بڑے گھر، جہاں ہم مقیم تھے، کو بھی ہمیشہ صاف ستھرا رکھا۔ یہی نہیں بل کہ اس نے اس بڑے خاندان کی ایک ایک فرد کی، مکمل تن دہی سے خدمت کی۔ مَیں سوچتا کہ مَیں نے کسی ولی اللہ سے شادی کی ہے۔ جہاں تک میرا تعلق تھا، مَیں اس سے پوری طرح مطمئن تھا۔ جب وہ میرے گھر شادی کرکے آئی، تو چند پڑوسی لڑکیاں، خاص طور پر میری پسند کی ہوئی دلھن کو دیکھنے آئیں۔
’’روشی‘‘ بھی ان میں سے ایک تھی۔ اس نے مرجھایا ہوا چہرہ بنایا تھا۔ وہ میرے پاس سے گزری اور دانتوں کو بھینچتے ہوئے سرگوشی کی، ’’اس کی بھی نیلی آنکھیں ہیں، لیکن میری طرح نہیں۔‘‘ مَیں بڑبڑایا، ’’خدا کا شکر ہے، وہ تم جیسی نہیں ہے۔‘‘
میری شادی 17 اکتوبر 1965ء کو ہوئی تھی۔ پاک بھارت جنگ کی وجہ سے ہم نے کچھ راتیں بلیک آؤٹ میں بھی گزاری تھیں۔ چند ماہ بعد اس کا اسقاطِ حمل ہو گیا۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ پورے خاندان کو مایوسی ہوئی۔ مَیں نے اسے تسلی دی کہ ہم ابھی نوجوان ہیں، اگر اللہ نے چاہا، تو ہمیں اولاد سے ضرور نوازے گا۔ تب میں 23 سال کا تھا اور ہماری دونوں کی عمر میں ایک یا دو سال کا فرق تھا۔
اللہ نے ہمیں 1967ء میں ایک بیٹا ہمایون عطا کیا اور اُسی سال والی صاحب نے میرے والد کو روڈ سائیڈ پر نئے تعمیر شدہ بنگلہ نمبر AB-2 میں شفٹ ہونے کو کہا۔ چناں چہ ہم پرانی بڑی حویلی سے شفٹ ہوگئے۔ میرے بھائی اور جہانزیب کالج کے کلاس فیلوز اس حویلی سے گھر کا سامان اتارنے میں ہماری مدد کرنے آئے۔ میری بیوی وہ مٹی کی پتھر کی دیواریں، لمبے برآمدے اور ایک کشادہ صحن مِس کرتی، جہاں ہمارے چھوٹے بچوں نے سائیکل چلانا سیکھا۔ تب ہمارے پڑوسی ڈاکٹر شیرین جان، صوبہ دار میجر دلارام خان اور ڈاکٹر سری رام تھے۔
پرانی حویلی سے ہماری منتقلی کے بعد تاریخی افسر آباد کا زوال شروع ہوگیا۔ تمام بڑے بڑے پرانے مکانات کو زمین بوس کر دیا گیا اور پہاڑی کے دامن میں نائب سالار، سیکریٹری محمود خان اور دیگر مشیروں کے لیے نئے جدید طرز کے کوارٹر اور بڑے بنگلے تعمیر کیے گئے۔ مَیں اور میرے والد اب بھی نائب سالار عمرا خان کی رہایش گاہ پر جاتے رہے، جہاں ہم تاش کھیلتے اور ریڈیو پر خبریں سنتے۔ ٹی وی کی نشریات ابھی تک ریاست تک نہیں پہنچی تھیں۔
1960ء کی دہائی بہ طورِ ریاست، سوات کی تاریخ میں ایک انقلابی دہائی تھی۔ سماجی اور اقتصادی ترقی ناقابلِ تصور رفتار کے ساتھ جاری تھی۔ دور دراز علاقوں میں تعلیم اور صحت کی سہولیات کو قابلِ رسائی بنایا گیا۔ تجارتی سرگرمیاں اس قدر تیز ہوئیں، جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھیں۔ مینگورہ تجارت اور صنعتوں کا مرکز بنتا جا رہا تھا۔ یہ چھوٹا سا قصبہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر، غیر منظم طریقے سے ہر طرف پھیل رہا تھا۔ والیِ سوات نے پنجاب کے سرمایہ کاروں کو سوات میں ریشم کی صنعتیں لگانے کی ترغیب دی۔ چناں چہ مینگورہ، کاٹیلئی (اب امانکوٹ) اور رحیم آباد میں درجنوں سلک فیکٹریوں نے کام شروع کر دیا۔
چوں کہ سواتیوں میں متعلقہ مہارت کی کمی تھی، اس لیے زیادہ تر مزدور پنجاب سے لائے گئے۔ والیِ سوات نے ان پنجابیوں کو ’’لنگ‘‘ پہننے سے منع کیا۔ مل مالکان کو قانونی بانڈ کے ذریعے پابند کیا گیا کہ سوات میں کاروبار ترک کرنے کی صورت میں وہ مشینری منتقل نہیں کریں گے۔
رفتہ رفتہ مقامی مزدور تکنیکی طور پر پنجابیوں کے برابر ہوگئے اور اب ان کے پاس مزدور یونینوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کافی اکثریت تھی۔ معاشرے میں کچھ سماجی برائیاں بھی پیدا ہوئیں، خاص طور پر نئے شہر کی کچی آبادیوں میں۔ شراب ان برائیوں میں سے ایک تھی۔ اس سے پہلے شراب نوشی معدودے چند افراد تک محدود تھی۔ غیر ملکیوں کو صرف سوات ہوٹل میں پیش کی جاتی، لیکن کچھ مقامی عادی افراد یا نئے پینے والوں کو مقامی طور پر تیار کردہ ’’ٹھرہ‘‘ بھی مل سکتا تھا۔
کچھ معزز صارفین کو مین بازار کی ایک دکان سے دیگر اشیا کی آڑ میں غیر ملکی برانڈز کی شراب حاصل کرنے کی سہولت حاصل تھی، مگر وہ ہر ایرے غیرے کو نہیں بیچتا تھا۔ اس کے گاہک بہت محدود تھے۔ شہر کے مضافات میں ایک اور ہوٹل تھا، جو اپنے جاننے والے محدود لوگوں کو شراب سرو کرتا۔ آفندی نامی شخص کافی عرصے سے اس ناجائز کاروبار میں ملوث تھا۔ مَیں یہ دعوا نہیں کرتا کہ مَیں اپنے حلقے میں واحد مسٹر کلین تھا، لیکن مَیں عادی شرابی نہیں تھا۔
دراصل مَیں آپ کو بتانے جا رہا تھا کہ میری بیوی کی دل میں مذہب اور مقدس کتاب کے لیے کیسی لگن تھی۔ ایک رات مجھے ایک دوست نے مذکورہ ہوٹل میں ایک پارٹی میں مدعو کیا۔ مَیں نے اپنے دفتر میں تعلیم، صحت اور جنرل ایڈمنسٹریشن پر ریاست کے سالانہ اخراجات کا ڈیٹا تیار کرتے ہوئے ایک مصروف دن گزارا تھا، اس لیے مجھے لباس تبدیل کرنے کا وقت نہ مل سکا اور سیدھا ہوٹل چلا گیا۔ مَیں نے اس دن براؤن تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا۔
پارٹی بہت دیر سے ختم ہوئی اور جب مَیں اپنی رہایش گاہ پر پہنچا، تو رات کے تقریباً 12 بج چکے تھے۔ مَیں نے گھنٹی بجائی۔ میرے والد نے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا۔ مَیں خاموشی سے اس کے پاس سے منھ پر رومال رکھے اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ میری بیوی کو فوراً پتا چل گیا کہ مَیں نے پی رکھی ہے۔ مَیں عجیب طرح سے بستر پر لیٹ گیا اور بے سد ہو کر سوگیا۔ صبح اُٹھا، تو خود کو کل رات والے سوٹ کے بجائے شلوار قمیص میں پایا۔ مَیں اپنے آپ سے بہت شرمندہ ہوا اور قسم کھا لی کہ دوبارہ اس ہوٹل میں نہیں جاؤں گا۔ میری بیوی نے گذشتہ رات کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور روزمرہ کے کاموں میں مصروف رہی۔ جیسے ہی میرے دفتر جانے کا وقت ہوا، مَیں نے اپنے سوٹ کو استری کیا ہوا پایا۔ اُس وقت میرے پاس پہننے کے لیے کوئی دوسرا سوٹ نہیں تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔