پاکستانی مجلسِ شورہ نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئینِ پاکستان کے آرٹیکل ’’38 ایف‘‘ میں نمایاں تبدیلی کی، جس کے مطابق ریاستِ پاکستان یکم جنوری 2028ء سے پہلے سود کا مکمل طورپر خاتمہ کردے گی۔ اس کے لیے ڈیڈلائن قائم ہونے پر مذہبی، سماجی و معاشی حلقے مسرت کا اظہار کررہے ہیں۔
یاد رہے 73ء میں آئین بناتے وقت یہ طے کیا گیا تھا کہ ریاستِ پاکستان جلد از جلد سود کا خاتمہ کرے گی۔ افسوس 51 سال گزرنے کے باوجود ریاستِ پاکستان سود کے خاتمے کو یقینی نہ بنا سکی۔ بلاشک و شبہ 26ویں آئینی ترمیم ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہ ہرحال یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں، جن کے جواب اپنی دانست میں دینے کی ادنا سی کوشش کی ہے۔ قارئین کا ان جوابات سے متفق ہونا لازم نہیں۔
٭ کیا روایتی بینکاری نظام ختم کردیا جائے گا؟
پاکستان میں بینکاری نظام ’’بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962ء‘‘ کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ باوجود اس کے اسلامی بینکاری نظام کے نام پر روایتی بینکوں نے کاؤنٹرز قائم کیے ہیں، تاہم روایتی اور اسلامی بینکاری نظام میں واضح فرق نہ ہونے کی بنا پر سوالات اُٹھ رہے ہیں اور بینکوں کے پینل پر متعین مفتیانِ کرام کی جانب سے توجیہات پیش کی جارہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اشتہارات کی مد میں کروڑوں روپیا خرچ کرکے بتایا جارہا ہے کہ روایتی اور اسلامی بینکنگ نظام میں بہت فرق ہے۔ ریاستِ پاکستان کے لیے سود کے خاتمے کی طرح روایتی بینکاری نظام کو ختم کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف قرار پائے گا۔ بینکوں میں لاکھوں اکاؤنٹ ہولڈروں کے اکاؤنٹوں کو سودی نظام سے پاک کرنے کے لیے کیا لائحۂ عمل تیار کیا جائے گا؟ سود کے خاتمے کے حوالے سے سٹیٹ بینک کے ذرائع کے مطابق حکومتِ پاکستان کو 20 سے زائد قوانین کو ختم کرنا پڑے گا، یا اُن میں ترامیم لانی پڑیں گی۔
٭ سود خاتمے کا اطلاق عالمی مالیاتی اداروں پر بھی لاگو ہوگا؟
عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر ممالک سے لین دین کے معاملات پر آئینِ پاکستان کی ترمیمی شق لاگو کرنا سوالیہ نشان رہے گا۔
٭ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں سے قرضوں کا حصول ممکن ہوگا؟
ریاستِ پاکستان کا مالیاتی نظام عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں سے زیادہ عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے لیے گئے قرضوں پر انحصار کرنا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک ایسے عالمی مالیاتی ادارے غیر مسلم ممالک کے زیرِ اثر کام کررہے ہیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ عالمی مالیاتی ادارے سود سے پاک نظام کے قائل نہیں۔ یہاں تک کہ دوست اور اسلامی ممالک خصوصاً سعودی عرب سے قرضہ بھی شرحِ سود پر ملتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوگا کہ یہ مالیاتی ادارے اور دوست ممالک، پاکستان کو سود کے بغیر قرضے مہیا کریں؟ یاد رہے کہ عالمی مالیاتی اداروں کا کاروباری نظام کسی صورت پاکستان پر منحصر نہیں، بل کہ پاکستان اپنے معاشی معاملات چلانے کے لیے ان اداروں کے سامنے کشکول اٹھائے نظر آتا ہے۔
٭ عالمی مالیاتی اداروں کو یکم جنوری 2028ء سے پہلے لیے گئے قرضوں پر سود دینا بند کردیا جائے گا؟
تصور کریں کہ یکم جنوری 2028ء پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کو یہ کہے کہ چوں کہ پاکستانی آئین میں یہ قرار پایا ہے۔ لہٰذاہم سود کی مد میں کوئی رقم ادا نہیں کریں گے، تو کیا صورتِ حال منظر نامے پر آئے گی؟ اس کا جواب تو آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔
٭ آرٹیکل ’’38 ایف‘‘ پرعمل درآمدنہ ہوا، تو ذمے داری کس پر عائد ہوگی اور ذمے داران پر کیا سزا لاگو ہوگی؟
آرٹیکل ’’38 ایف‘‘ آئینِ پاکستان کے پالیسی کے اُصولوں کے ماتحت ہے اور پالیسی کے اُصولوں کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 29 (2) میں درج ہے کہ پالیسی کا انحصار اس مقصد کے لیے دست یاب وسائل پر ہوسکتا ہے، اُصول کو وسائل کی دست یابی سے مشروط سمجھا جائے گا۔ اسی طرح آرٹیکل 30 (2) میں درج ہے کہ ریاست کے کسی عمل یا قانون کی درستی کو اس بنیاد پر سوالیہ نشان نہیں بنایا جائے گا کہ یہ پالیسی کے اُصولوں کے مطابق نہیں۔ ریاست اور ریاستی اداروں یا اتھارٹی کے برخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ یعنی یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر یکم جنوری 2028ء تک سود خاتمہ ممکن نہ ہوپایا، توکسی کے برخلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں ہوسکے گی۔
٭ کیا واقعی 2028ء سود کے خاتمہ کا سال ثابت ہوگا؟
سود سے پاک ریاستِ پاکستان ایک ایسا سنہری خواب ہے، جس کی تکمیل کے لیے بہ ظاہر پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے پاس سود کے متبادل مالیاتی نظام موجود نہیں۔ ایک ایسا نظام جو نہ صرف ریاست کے اندر، بل کہ عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ سود سے پاک لین دین کویقینی بنائے۔ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق 15 برس یعنی 1988ء تک اُردو بہ طورِ سرکاری دفتری زبان نافذ کردی جائے گی، یعنی انگریزی زبان کا خاتمہ ہوگا۔ افسوس! جب ریاست اور سیاسی جماعتیں قومی زبان کو سرکاری دفتری زبان کے طور پر نافذ نہ کر پائیں، تو سود کا خاتمہ جیسے پیچیدہ معاملے کو کیسے حل کر پائیں گی؟ ریاستی سنجیدگی اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے رویوں کو سامنے رکھ کر یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہوگی کہ سود خاتمے کا سہانا خواب شرمندۂ تعبیر ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ سال 2027ء کے آخر میں پھر ایک نئی آئینی ترمیم لاکر سود خاتمہ کی تاریخ میں توسیع کر دی جائے گی، تاکہ آئینِ پاکستان کی پاس داری کا بھرم بھی قائم رہ سکے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
