ذرا سوچیں…… کہ آپ رات کے وقت کوئی ضروری کام کر رہے ہیں۔ اچانک بجلی چلی جاتی ہے۔ آپ فوراً ایمرجنسی لائٹ تلاش کریں گے۔ اگر وہ لائٹ پتے پر رکھی گئی ہوگی، تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ آپ اسے فوراً اٹھا لیں گے، لیکن اگر وہ لائٹ مطلوبہ جگہ پر نہ ہوئی، توکتنی پریشانی کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ لائٹ تلاش کرتے وقت آپ کا ہاتھ کسی خطرناک یا زہریلی چیز سے ٹکرا سکتا ہے، جس سے کوئی بڑا نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً قیمتی کراکری ٹوٹ سکتی ہے۔ شیلف پر پڑی قیمتی دوائی ضائع ہو سکتی ہے۔ تلاش کرتے وقت ہاتھ میں سوئی ، چھری یا اس طرح کی کوئی بھی چیز لگ کر نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ہمارے پاؤں کے نیچے قیمتی چیز آ کر ٹوٹ سکتی ہے یا پھر ہم خود کسی چیز سے ٹکرا کر زخمی ہو سکتے ہیں۔ اندھیرے میں سیڑھیوں سے پھسل سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ہمارا یہ طرزِ عمل جس میں اپنی یا کسی دوسرے کی ذات کو پریشانی لاحق ہو، ظلم کہلاتا ہے۔
مشہور و معروف تصور میں ’’ظلم‘‘ کا مطلب ہے کسی کی ذات کو اپنے ارادے سے نقصان پہنچانا، لیکن یہ ’’ظلم‘‘ کی آخری حد ہے۔ دراصل ظلم ایک بہت وسیع معنی و مفہوم کا حامل لفظ ہے۔ یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور عربی لغت میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے: ’’الظلم: وَضْعُ الشَّیءِ عَلٰی غَیرِ مَوضِعِہٖ‘‘ یعنی ظلم کا مطلب ہے کسی بھی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر رکھنا۔ جس زمین میں کبھی کوئی گڑھا نہ کھودا گیا ہو، بعد میں وہاں گڑھا کھود دیا جائے، تو اس زمین کو بھی ’’مظلومہ‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح اونٹ کو بغیر کسی بیماری کے ذبح کر دینا بھی ’’ظلم‘‘ کہلاتا ہے۔ نیز اپنی حد سے تجاوز کر جانے کو بھی ’’ظلم‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں یہ مختلف صورتوں میں تقریبا 133 مرتبہ استعمال ہوا ہے، جہاں اس کے تقریبا چار مفہوم لیے گئے ہیں۔ کفر، اندھیرا، گناہ اور اس کے معروف معنی ’’زیادتی‘‘ و’’جبر‘‘ کے ہیں۔
ان تمام معانی کو مدنظر رکھا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ ’’ظلم‘‘ صرف یہ نہیں کہ کسی کو قتل یا زخمی کر دیا جائے یا اس سے مال و دولت چھین لی جائے بلکہ اگر کوئی افسر اپنے ماتحت لوگوں سے حسنِ سلوک سے پیش نہیں آتا، تو یہ بھی ’’ظلم‘‘ ہے۔ اگر کوئی حاکم اپنے خاص لوگوں کو بلاوجہ نوازتا ہے اور دوسروں سے اعراض برتتا ہے، تو یہ بھی ظلم ہے۔ کرپشن، رشوت، بے ایمانی، جھوٹ، چغلی، غیبت، زنا اور دیگر گناہ کے کام بھی ’’ظلم‘‘ شمار ہوں گے۔ کسی انسان کا دِل دُکھانا، اُس کی چیز کو اپنی سمجھ کر ہڑپ کر جانا، اولاد کو جائز حصہ سے محروم رکھنا، بیٹیوں سے مال و معاملات میں زیادتی کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، جھوٹی گواہی دینا، غلط فیصلہ کرنا، نفس کی پیروی کرنا، بُرے کا ساتھ دینا، مظلوم کی مدد نہ کرنا، کسی کے نیک کام میں روڑے اٹکانا، پڑوسیوں، والدین، بہن بھائیوں، رشتہ داروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا، اپنے ماتحت افراد کو خواہ مخواہ تنگ کرنا، بڑوں کا کہا نہ ماننا، اکابرین کی بے ادبی کرنااور اپنے سے چھوٹوں سے حسن سلوک نہ کرنا وغیرہ یہ سب امور ’’ظلم‘‘ کہلاتے ہیں۔
ظلم کا شکار جس طرح دوسرے افراد بنتے ہیں، اسی طرح اپنے ظلم کا شکار انسان خود بھی بن جاتا ہے۔ مثلاً ہم باہر سے گھر آ کر اپنے کپڑے، بیگ، جوتے اور دیگر سامان کو اِدھر اُدھر پھینک دیتے ہیں۔ واش روم سے نکلتے وقت تولیہ اپنی جگہ پر نہیں رکھتے۔ دفتر میں اپنے موبائل، قلم، کاغذ، لیٹر پیڈ اور مہر وغیرہ کی حفاظت نہیں کرتے۔ نماز پڑھتے وقت اپنے موبائل کی گھنٹی بند نہیں کرتے۔ مسجد میں جاتے وقت اپنے جوتے حفاظت سے نہیں رکھتے۔ اپنے آفس یا گھر کے کمرے کو لاک نہیں کرتے۔ یہ سب چیزیں بھی ظلم کہلاتی ہیں اور یہ ایسا ظلم ہے جو انسان اپنی جان کے ساتھ کرتا ہے۔ کیوں کہ جب سامان گم ہوتا ہے یا بے دھیانی میں اِدھر اُدھر رکھ دیا جاتا ہے، تو خود کو پریشانی اٹھانی پڑتی ہے، اور یہ چیز اپنی ذات کے ساتھ ’’ظلم‘‘ کہلاتی ہے۔
برصغیر کے عظیم صوفی بزرگ اور کثیرالتصانیف عالم مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ مرض الموت میں گرفتار تھے۔ کمزوری کا غلبہ ہو گیا تھا۔ رات کے وقت انھیں قضائے حاجت پیش آگئی۔ اکیلے اٹھے اور ڈرم کی جانب چل دئیے (اُن دنوں لوٹے بیت الخلا سے باہر کسی بڑے برتن یا ڈرم وغیرہ کے ساتھ رکھے ہوتے تھے۔ تاکہ جب بھی کسی کو تقاضا ہو، تو بجائے بیت الخلا سے لوٹا اٹھا کر ڈرم تک لانے اور پھر وہاں سے بھر کر دوبارہ بیت الخلا جانے کے، ابتدا سے ہی لوٹا ڈرم کے پاس رکھا رہے اور اسے بھرنے میں آسانی ہو)۔ چناں چہ حضرت ڈرم کے پاس گئے اور وہاں سے لوٹا اٹھا کر بھرا اور پھر بیت الخلا میں جا کر قضائے حاجت کی۔ نقاہت کی وجہ سے لوٹا باہر ڈرم کے پاس رکھنا بھول گئے اور بڑی مشکل سے گرتے پڑتے اپنے بستر تک آ گئے لیکن جب بستر پر بیٹھ گئے، تو یاد آیا کہ میں نے لوٹا تو بیت الخلا میں ہی چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا پھر دوبارہ اٹھے اور گرتے پڑتے بیت الخلا گئے، وہاں سے لوٹا اٹھایا اور جا کر ڈرم کے قریب رکھ دیا۔ اتنے میں آپ کا سانس پھول گیا اور بڑی ہی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔اسی اثنا میں آپ کی گھر والی جاگ گئی۔ کہنے لگی: ’’آپ نے قضائے حاجت کے لیے جانا تھا، تو مجھے جگا لیتے؛ خود کیوں تنگ ہو رہے ہیں؟‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ ’’تمہیں جگانا میں نے مناسب نہیں سمجھا اور اب تو صرف لوٹا رکھنے کے لیے ہی یہاں آیا ہوں۔‘‘ وہ پھر گویا ہوئی کہ ’’کیا ضرورت تھی لوٹا باہر رکھنے کی؟ وہیں بیت الخلا میں پڑا رہنے دیتے؟‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’میں نے لوٹا اس لیے باہر رکھا ہے کہ تم جب صبح بیدار ہوگی، تو باہر لوٹا نہ پا کر تکلیف محسوس کرو گی۔ تمہیں اس پریشانی سے بچانے کے لیے میں نے خود تکلیف اٹھانا گوارا کر لی ہے ۔‘‘
سوچنے کا مقام ہے کہ اتنی چھوٹی سی بات میں بھی اکابرین دوسروں کی ایذا رسانی برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور ایک ہم ہیں کہ اپنی اور دوسروں کی ذات پر ظلم پر ظلم کیے جا رہے ہیں اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہوتا!
دراصل ان کے مدنظر اللہ اور اس کے رسولؐ کا فرمان ہوتا تھا، مثلاً حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا: ’’ظلم‘‘ روزِ قیامت اندھیروں کی شکل میں ہوگا۔ نیز حضرت محمدؐ نے فرمایا: ’’جب تم اپنے بھائی سے لاٹھی عاریتاً مانگو (اور تمہارا مقصد پورا ہو جائے، تو) اسے فورا واپس کر دو۔‘‘ ایک اور فرمان نبویؐ ہے: ’’کسی مسلمان کا مال اس کی دلی اجازت کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ اسی طرح یہ بھی فرمایاکہ:’’مسلمان کے مال کی حرمت بھی ایسی ہی ہے جیسے اس کے خون کی حرمت۔‘‘ (یعنی جیسے مسلمان کا خون بہانا حرام ہے اسی طرح کسی کا مال استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے )۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے: ’’کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کا کوئی مال ناحق طور پر لے، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مسلمان کا مال مسلمان پر حرام قرار دیا ہے ۔ اور اِس کو بھی حرام قرار دیا ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کی لاٹھی بھی اس کی خوش دلی کے بغیر لے ۔‘‘
……………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔