موجودہ بحرین کے جنوب میں اوپر پہاڑی پر ایک گاؤں ہے اور اب بھی کافی حد تک قدیم داردی گاؤں کی صورت میں موجود ہے۔ اُس کو توروالی میں ’’پُران گام‘‘، پشتو میں ترجمہ کرکے ’’زوڑ کلے‘‘ اور اُردو میں ’’پرانا گاؤں‘‘ کہتے ہیں۔
’’پُران گام‘‘ کے نام سے اس گاؤں کا ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہاں کوئی ’’نَم گام‘‘ (نیا گاؤں) بھی تھا۔ اِن دونوں کو ملا کر ’’بھووُنال‘‘ کہتے تھے، جس میں ایک پرانا گاؤں تھا اور ایک نیا۔ یہ نیا گاؤں کوئی نہیں بلکہ بحرین ہی تھا، جس کو اُس وقت پشتو میں جدید برانیال بھی کہتے تھے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
’’بھوُون‘‘ کا مطلب توروالی لفظ ’’بھون‘‘ نہیں، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں۔ ’’بھون‘‘ کھیتوں میں جو پودا کراکر ہوتا ہے، اُس کو کاٹنے کے بعد جو ٹہنیاں رہتی ہیں، اُن کو کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ’’بھوُون‘‘ سے مطلب کئی لوگوں نے یہی ’’بھون‘‘ لیا ہے۔ اس سے بھی بڑی بدقسمتی یہ کہ لوگوں نے اس پر یقین بھی کر لیا ہے۔
’’بھووُون‘‘ لفظ ’’بھونی‘‘ یا ’’بھومی‘‘ سے مشتق ہے، جس کا مطلب ’’آبائی‘‘ یا ’’زیئی بدی‘‘ ہونا ہے۔ بحرین کے جنوب کو ’’رود باری‘‘ بھی کہا گیا ہے اور باری کا مطلب بھی ’’زیئ بدی‘‘ ہونا ہے۔ ’’بھووُون‘‘ توورالی قوم کا ایک بڑا ’’لت‘‘ ہے۔ پشتو میں ’’لت‘‘ کو ’’ڈَلہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ’’لت‘‘ لفظ ’’لات‘‘ سے مشتق ہے اور اس کے معنی لشکر کے ہوسکتے ہیں۔ قدیم زمانے میں سیاسی تقسیم ایسی ہوتی تھی۔ ایک لت میں کسی ایک قبیلے ہی کے لوگ نہیں بلکہ کئی قبیلوں کے لوگ شامل ہوتے تھے۔ ایک لحاظ سے یہ اُس وقت کی سیاسی پارٹیاں ہوتی تھیں، جو لشکر کا کام بھی کرتی تھیں اور مقامی وسائل کی تقسیم کے طریقۂ کار میں بھی ایک گروہ ہوتا تھا۔ اسی طرح قدیم سیاسی انتظام ’’یَرک‘‘ (جرگہ) میں بھی اسی لت کی بنیاد پر حصّہ لیا جاتا تھا۔
ایک دوسرا لفظ بھی دوسری زبانوں کے ہم پر یلغار کی وجہ سے ساری داردی زبانوں میں غلط استعمال ہوا۔ یہ لفظ ’’کمین‘‘ ہے۔ کمین سے ’’کمی‘‘، ’’کم تر‘‘ یا ’’کمینہ‘‘ کا مطلب لیا گیا۔ یہ سارے مطالب دوسری زبانوں کے الفاظ اور تصورات سے آئے ہیں۔ جنرل ایوب کے زمانے میں ’’کمی‘‘ اور ’’خاندانی‘‘ کا تصور سیاسی طور پر بھی رائج ہوا۔
ذرا بڑوں سے پوچھ کر دیکھ لیں کہ ہماری زبان (توروالی) میں ’’کمین‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب ’’اَصیل‘‘ یعنی ’’مہذب‘‘ ہے۔ دوسرے معنی کام کرنے والے کے ہیں۔
ہمارے ہاں کئی تصورات جو اَب رائج ہیں، اُن حملہ آوروں کی ثقافتوں سے لیے گئے ہیں، جنھوں نے یہ علاقے اپنے تسلط میں لائے تھے۔ اس کی ایک مثال لفظ ’’دؤتر‘‘ بھی ہے۔ یہ لفظ 16ویں صدی کے تقسیم کار شیخ ملی جن کو کئی لوگ بزرگ مانتے ہیں، کے ایک رجسٹر سے لیا گیا ہے، جس کو فارسی میں ’’دفتر‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس کتاب یعنی دفتر میں سوات میں داردیوں کو نکالنے کے بعد زمینوں کی عارضی تقسیم ’’ویش‘‘ کا ریکاڑد رکھا جاتا تھا۔ اس کتاب میں کئی لوگوں کے نام نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے اُن کو ’’بے دؤتر‘‘ کہا گیا۔
دیگر متعلقہ مضامین:
وہ توروالی صنعت جو معدوم ہوگئی  
توروالی موسیقی کا مقدمہ  
توروالی-انگلش ڈکشنری برائے طلبہ کا جائزہ  
توروالی موسیقی اور ’’منجورا‘‘  
توروالی اور گاؤری علاقوں کا دیرینہ مسئلہ
ہمارے اپنے آبائی تقسیم کار میں ’’دؤتر‘‘ کا تصور نہیں تھا۔ ہمارے ہاں زیادہ مستعمل طریقہ ’’دھیمی‘‘ کا تھا اور دھیمی ’’دھوم‘‘ سے ہے۔ جو لوگ یہاں رہتے تھے اور مسلسل یہاں کے ’’زیان تاوان‘‘ اور ’’لت بازی‘‘ (ڈلہ بازی) میں شریک ہوتے اور دیرہ وغیرہ چلا سکتے تھے، اُن کو دھوم کہا گیا۔ لہٰذا دھیمی کی تقسیم کے طریقۂ کار میں ’’کلا‘‘ یا ’’گھرانا‘‘ مرکز ہوتا تھا۔
اسی طرح آپ نے لفظ ’’شا تورے‘‘ تو سنا ہی ہوگا۔ پشتو کا لفظ ہے، ہمارا اپنا نہیں۔ اس سے مراد یہ ہوا کہ اگر ’’شا تورے‘‘ کا تصور ہمارے ہاں ہوتا، تو اس کے لیے اپنا کوئی لفظ یعنی ’’ڈاک کیِن‘‘ یا اسی طرح کا کوئی لفظ مستعمل ہوتا۔
اس لفظ کا اصل پشتو ہے اور یہ ’’تش تورے‘‘ سے بنا ہے۔ ’’تش‘‘ کا مطلب ’’خالی‘‘ ہے اور ’’تورے‘‘ کا مطلب پشتو میں ’’حرف‘‘ یا ’’لکھائی‘‘ ہے۔ ’’تش تورے‘‘ سے مطلب یہ ہوتا کہ کسی شخص کا نام اگر شیخ ملی کی ویش والی کتاب میں نہ ہوتا، تو اُس کو ’’تش تورے‘‘ یعنی ’’نام کے ساتھ کچھ لکھا نہیں ہے‘‘ کہا جاتا۔
شیخ ملی کے اس ویش نظام کو جب سوات میں بہ تدریج ختم کیا گیا اور لوگوں میں زمینیں مستقل طور پر تقسیم کی گئیں، تو نیچے سوات میں بااثر لوگوں کو زیادہ زمینیں دی گئیں۔
ریاستِ سوات چوں کہ کسی خاص قانون کے تحت نہیں بلکہ رواج کے تحت چلتی تھی، لہٰذا اسی نظام کو زمینوں اور جنگلات کی تقسیم کے لیے ہمارے ہاں بھی رائج کیا گیا۔ چوں کہ ہمارے اردگرد اور قریب تر پشتو ہے، تو اس کا ہم پر اثر ہوا ہے اور ہم اکثر کئی مسائل کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ ’’توروالی‘‘ لے لیں۔ کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ اس لفظ سے مراد ’’کالا‘‘ ہے کہ ’’تور‘‘ پشتو میں ’’کالے‘‘ کو کہا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم تاریخ سے بے خبر ہیں اور سوچنے کے لیے زیادہ دماغ استعمال نہیں کرتے۔ ہماری اپنی زبان (توروالی) میں تلوار یا پشتو میں ’’تورا‘‘ لفظ کے لیے ’’تروأل‘‘ آتا ہے۔ اسی طرح توروالی زبان کی بہن جو اب زندہ نہیں رہی اور اُس کا نام ’’تیراہی‘‘ تھا، اُس میں تلوار کو ’’تیروالی‘‘ (Tarwali) کہا جاتا تھا۔ وہ ہم توروالیوں کو ’’تلوار باز‘‘ کہتے تھے، اس لیے اُن کے ہاں ہم توروالی ٹھہرے۔
دوسری طرف آپ کو معلوم ہوگا کہ مہا بھارت جو 4 سو سال قبلِ مسیح میں لکھی گئی تھی، میں ایک قبیلہ ’’تورواشا‘‘ کا ذکر ہوا ہے اور جنھوں نے پانڈو لوگوں سے مقابلہ کیا تھا۔
تاریخ میں یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ کوئی قوم کسی کو کوئی خاص نام دیتی رہی ہے۔ مثلاً: جب آریا لوگ ہندوستان میں ہجرت کرکے آئے، تو اُنھوں نے ہندوستان کے جنوب میں بستی ’’ہراپائی اقوام‘‘ کو ’’ملیچھ‘‘ کہا، جو کہ ہندوستان کے پرانے باشندے تھے۔ اسی طرح شمالی ہندوستان یعنی آج کے پاکستان کے بالائی علاقوں میں بسنے والوں کو ’’پیشاچہ‘‘ کہا۔ اب بھی پنجاب میں ’’پیشاچہ‘‘ کا مطلب ایک ’’دیو‘‘ یا ’’درندے‘‘ کا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں شمال سے یہ اقوام اناج وغیرہ کے لیے جاکر جنوبی لوگوں سے قدیم زمانے میں زبردستی اناج چھین کر لاتے۔
اس بحث کے مخاطب نوجوان ہیں۔ وہ اس پر اکتفا نہیں کرسکتے کہ ہم خود کو کیا کہتے ہیں؟ اُن کو تجسس ہوتا ہے۔ اُن کو قدم قدم پر تعصب کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لیے اُن کو بے چینی ہوتی ہے۔ ان کو تحقیق کی طرف مائل ہونا چاہیے اور سنی سنائی باتوں کو ریزہ ریزہ کرکے پرکھنا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔