ہمیشہ سے سنتے آرہے ہیں کہ جانوروں میں سب سے تیز دوڑ چیتے کی ہوتی ہے، لیکن جب وہی چیتا اپنی بھوک مٹانے کیلئے ہرن کا تعاقب کرتا ہے، تو بیشتر اوقات وہ اسے زیر نہیں کرسکتا۔ کیونکہ زندگی بچانے کا مقصد بھوک مٹانے سے کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔
یہی صورتحال آج سے 70 سال پہلے ہندوستان کے مسلمانوں اور پوری دنیا کی یہودیوں کو درپیش تھی۔ ایک طرف ہندو بنیا بڑی مکاری سے ہندوستان کے مسلمانوں کو زیر کرنے میں مصروف تھا جبکہ دوسری طرف ہٹلر جیسا درندہ اور اس کے اتحادی یہودیوں کی نسل کشی کر رہے تھے۔ جب تقسیم بنگال میں کانگریس کے دوغلے پن کا پردہ مسلمانوں پر آشکار ہوا، تو مسلمانوں نے اپنی پوری جدوجہد کا مقصد دو قومی نظریے کو بنایا جو آگے چل کر دنیا کے نقشے پر پہلی نظریاتی و مذہبی ریاست کے وجود کا سبب بنا۔ دوسری طرف جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کی افواج نے یہودیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئیے اور تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کی نسل کشی کرکے ان کو پوری دنیا میں دربدر کر دیا۔ اگر ہم تعصب کا چشمہ اتار کر ’’ہالوکاسٹ‘‘ کا مطالعہ کریں، تو یہ یقینا دنیا کی تاریخ کا ایک ہولناک واقعہ تھا۔ اتنے مظالم سہنے کے بعد اتحادی افواج نے ایسی جگہ کی تلاش شروع کی جس میں لوگ نہ ہوں، ان لوگوں کیلئے جن کی جگہ نہ ہو۔ 1922ء کی مردم شماری کے مطابق فلسطین میں 15 سے 20 فیصد تک یہودی آباد تھے جو اس وقت ان کی کسی جگہ پر اکھٹی سب سے بڑی تعداد تھی۔ برطانوی وزیر خارجہ ’’بالفور‘‘ نے پوری دنیا کے یہودیوں کو لاکر فلسطین میں بسانا شروع کردیا جو 1948ء میں دنیا کے نقشے پر ایک اور نظریاتی و مذہبی ملک کے قیام کا سبب بنا۔

جب تقسیم بنگال میں کانگریس کے دوغلے پن کا پردہ مسلمانوں پر آشکار ہوا، تو مسلمانوں نے اپنی پوری جدوجہد کا مقصد دو قومی نظریے کو بنایا جو آگے چل کر دنیا کے نقشے پر پہلی نظریاتی و مذہبی ریاست کے وجود کا سبب بنا۔ (Photo: meraapakistan.wordpress.com)

یہ تو پس منظر تھا، اب آتے ہیں دونوں ممالک کے حالات کی طرف۔ پاکستان اور اسرائیل کو قیام سے لے کر اب تک تقریباً ایک جیسے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے ہمسائیے ان کے وجود کے دشمن ہیں۔ دونوں ممالک میں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ ہے۔ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس مظبوط افواج رکھتے ہیں۔ 1981ء میں اس وقت کے پاکستانی صدر ضیاء الحق نے ’’دی اکانومسٹ‘‘ جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان، اسرائیل کی طرح ایک نظریاتی ملک ہے۔ اسرائیل سے یہودیت کو نکال دو، تو وہ تاش کے پتوں کو طرح بکھر جائے گا، جبکہ اسلام کو پاکستان سے نکالنے کی صورت میں ہمارا وجود ہی مٹ جائے گا۔‘‘

اب جبکہ ایک جیسا پس منظر، ایک جیسے چیلنجز اور ایک جیسے جوہری صلاحیتوں کے باوجود ہم اسرائیل سے اتنا پیچھے کیوں رِہ گئے ؟ اس کا جواب ہے کہ انہوں نے جس نظریے کی بنیاد پر ملک بنایا تھا، اس کو تہہ دل سے لاگو کیا ہے، اسرائیلی ریاست پوری دنیا کے یہودیوں کے حقوق پر سمجھوتا نہیں کرتی اور صحیح معنوں میں ان کی خدمت کرتی ہے۔ پوری دنیا کے معاشی نظام کو انہوں نے اپنی قابلیت سے قابو کیا ہوا ہے اور ان کے عوام نے بھی اپنے آپ کو اسرائیل اور اپنی قوم کی خدمت کیلئے وقف کیا ہوا ہے۔

پاکستان اور اسرائیل کو قیام سے لے کر اب تک تقریباً ایک جیسے چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ دونوں ممالک کے ہمسائیے ان کے وجود کے دشمن ہیں۔ دونوں ممالک میں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ ہے۔ دونوں ممالک جوہری ہتھیاروں سے لیس مظبوط افواج رکھتے ہیں۔ (Photo: LinkedIn)

دوسری طرف ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ ملک کو کس نظام کے تحت چلایا جائے؟ ہماری ریاست ایک فلاحی ریاست بن پائی ہے اور نہ ہماری قوم نے کبھی اپنے ذاتی مفادات سے آگے کچھ سوچا ہی ہے۔
قارئین، ایک ہی مقصد کی بنیاد پر وجود میں آنے والے دونوں ممالک میں اب زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ ایک نے اپنے نظریے پر تہہ دل سے عمل کرتے ہوئے ترقیاتی ممالک کی صف میں جگہ بنائی ہے جبکہ دوسری طرف ہمارا وہی حال ہے جو ایک بھٹکے ہوئے راہی کا اپنے مقصد کو پس پشت ڈالنے کے بعد ہوتا ہے۔

……………………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔