کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار ناگزیر ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان دنیا کے ان 15 ممالک میں شامل ہے جن کی نصف سے زاید آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔
یہاں ملک کی کل آبادی میں 68 فی صد لوگ 30 سال سے کم عمر ہیں، جب کہ ان میں سے 32 فی صد 15 سے 20 سال عمر کے درمیان ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نوجوان کسی بھی ملک و قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں…… اورجب قوم کے نوجوان بلند حوصلہ اور قوم کی خدمت کے لیے کچھ کر گزرنے کا جنون رکھتے ہوں، تو وہ قوم ترقی کی منازل طے کرکے اعلا اقدار کے منصب پرفایز ہوتی ہے۔ اگر قوم کے نوجوانوں میں مایوسی پائی جاتی ہو، تو اس قوم کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔
بدقسمتی سے آج پاکستان کے نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے خاصے پریشان اور مایوس نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ مملکتِ خداداد میں نوجوانوں کو آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کے لیے سہولتوں سے زیادہ مسایل اور دشواریوں کا سامنا ہے۔
نوجوانوں کے مسایل حل کیے بغیر ملک میں ترقی ممکن ہوسکتی ہے، نہ بہترین معاشرہ ہی تشکیل پاسکتا ہے۔
پاکستان میں نوجوانوں کو درپیش سب سے بڑا گھمبیر مسئلہ بے روزگاری ہے۔ ملازمتوں کی عدم دستیابی اور روزگار کے حصول میں دشواری کے سبب مایوسی کی کیفیت نوجوانوں کی صلاحیتوں کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔
نوجوانوں کے لیے صحت مندانہ تفریح کے مواقع حسب ضرورت دست یاب نہیں۔ اس طرح یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ معیاری تعلیم ہمارے نوجوانوں کے لیے ابھی تک ایک خواب ہے۔ بالخصوص غریب نوجوانوں کو عام تعلیم اور فنی تعلیم کی سہولتیں ضرورت کے مطابق حاصل نہیں۔ نوجوانوں کو حصولِ علم کے ساتھ ساتھ بہتر اخلاقی تربیت کے حصول میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے نوجوان منفی سرگرمیوں کی طرف مایل ہو رہے ہیں…… جب کہ ہماری جامعات اور کالج ڈگریاں تقسیم کرنے والی مشینیں بن گئے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف ڈگری نہیں…… تعلیم کا حقیقی مقصد نوجوانوں کا مستقبل سنوارنا ہوتاہے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد جب نوجوانوں کو اپنے علم و فن کے مطابق ملازمتیں دستیاب نہیں ہوتیں، تو بے روزگاری کی یہ صورتِ حال پیچیدہ شکل اختیار کرلیتی ہے، اور نوجوانوں میں سماجی عدمِ تحفظ، لاقانونیت، بے راہ روی اور منشیات کے استعمال جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں…… جب کہ بینکوں اور گھروں میں ڈکیتیوں اور امن و امان کی خراب صورتِ حال کی ایک بڑی وجہ بھی بے روزگاری اور ملازمتوں کے حصول میں دشواری ہی نظر آتی ہے۔ اس صورتِ حال کے باعث غریب گھرانوں کے اکثر والدین غربت کی وجہ سے بچوں کو سکول بھیجنے کی بجائے محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں، جس سے ’نوجوان‘ خاندان کی کفالت کے قابل تو ہوجاتا ہے، مگر حصولِ علم کے بغیر اس میں معاشرے کی اچھائی ، برائی کو سمجھنے اور معاملات فہمی کی طاقت و سمجھ بوجھ نہیں ہوتی اور اس طرح اس کی صلاحیتیں قدرے جلد ختم ہوجاتی ہیں۔
حصولِ علم کے علاوہ نوجوانوں کے بلند معیارِ زندگی اور ان کی بہترین اخلاقی تربیت میں دورِ جدید کا میڈیا اہم ترین کردار ادا کرسکتا ہے…… مگر ہمارے ٹی وی چینل بھی مادر پدر آزاد مخلوط معاشرے کی نقالی میں روز بروز اپنا معیار کھورہے ہیں، جس کی وجہ سے ٹی وی پروگرام اور چینلوں کی اکثریت کششِ تفریح سے عاری ہے، جب کہ نوجوان بھارتی ڈراموں اور مغربی چینلوں کے دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ نوجوانوں میں قومی سوچ پروان چڑھانے میں ہمارے میڈیا کا رول خاصا کم رہا ہے۔
ہمارے زیادہ تر ٹی وی چینل معاشرے کی اخلاقی تربیت کی بجائے ریٹنگ کی دوڑ میں شریک نظر آتے ہیں ۔ اگر میڈیا ذمے داری سے اپنا کردا رادا کرے، تو ملک کے نوجوانوں میں نئی سوچ، نیا جذبہ اور نئی امنگ پروان چڑھ سکتی ہے۔ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اپنے ملک و معاشرے کی ترقی، استحکام اور امن کے قیام کے لیے اپنے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیتی ہیں…… اور ان کے مسایل کے حل کے لیے خصوصی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ اگر نوجوان درست ڈگر سے ہٹ جائیں، تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں بدقسمتی سے کئی دیگر حساس معاملات کی طرح نوجوانوں کے مسایل کے حل کے لیے واضح منصوبہ بندی کی بھی ہمیشہ سے کمی رہی ہے۔ ایک تن درست اور باشعور قوم بننے کے لیے ہمیں اپنے نوجوانوں کی درست سمت میں رہنمائی کرنا ہوگی اور اس کے لیے حکومتی اداروں، والدین، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے اداروں کے ساتھ ساتھ تمام مکاتبِ فکر کو اپنی ذمے داری ادا کرنی ہوگی، تاکہ ہمارا آج کا نوجوان باعمل اور باشعور شہری بن کر اپنی خدمات بھرپور انداز میں پیش کرسکے۔ اگر نوجوان نسل تعلیم یافتہ، ہنر مند اور باصلاحیت نہ ہو، تو یہ ایک معاشی بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری حکومت، نوجوانوں کو بوجھ نہ سمجھے۔ کیوں کہ قوموں کی تقدیریں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوا کرتی ہیں۔ انہیں بہتر روزگار، صحت مند سرگرمیوں کے فروغ اور کھیل کے میدان اور تفریح کے مناسب مواقع فراہم کیے جائیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں علاقائی کھیلوں کو فروغ دے کر مقامی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے…… جب کہ ملک کے نوجوانوں کو بھی عہد کرنا چاہیے کہ وہ مایوسیوں اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے، اپنی صلاحیتوں، اپنے علم و فن کو بروئے کار لاکر مملکتِ خداداد پاکستان سے محرومیوں کے اِزالے اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔